پاکستان

گرےلسٹ سے نکلنے کیلئے پاکستان 26 نکاتی ایکشن پلان پر عملدرآمد کا پابند

پاکستان آئندہ 15 ماہ تک ایکشن پلان پر عمل کرے گا،ایکشن پلان پر مذاکرات میں ناکامی پر پاکستان کو بلیک لسٹ کردیا جائے گا۔

اسلام آباد: پاکستان سے منی لانڈرنگ کے خاتمے اور دہشت گردوں کی مالی معاونت روکنے کے لیے حکومتی سطح پر حکمت عملی میں کوتاہیوں کا جائزہ لینے کے لیے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے ساتھ ایک ایکشن پلان زیر غور ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اب جبکہ پاکستان کا نام کو ’گرے لسٹ‘ میں شامل کرنے پر عملدرآمد ہورہا ہے، جس کا فیصلہ فروری 2018 میں کیا گیا تھا، اس کے تدارک کا عملی منصوبہ زیر غور ہے، اس سلسلے میں ایف اے ٹی ایف باضابطہ طور پر پاکستان کی گرے لسٹ میں شمولیت کا اعلان جمعے کے روز کرے گا۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں شامل

پاکستان کا نام گرے لسٹ میں ڈالنے سے روکنے پر حکومتی ناکامی کی رپورٹس پر دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل کا کہنا تھا کہ فروری 2018 میں ایف اے ٹی ایف کے پیرس میں ہونے والے پلانری سیشن میں اس بات کا فیصلہ کرلیا گیا تھا کہ جون 2018 تک پاکستان کا نام گرے لسٹ میں درج کردیا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ فروری میں اس بات کا بھی فیصلہ کیا گیا تھا کہ پاکستان اور ایف اے ٹی ایف عملی اقدامات کے منصوبے پر مشاورت کریں گے۔

رپورٹس کے مطابق پاکستان آئندہ 15 ماہ کے عرصے میں 26 نکاتی ایکشن پلان پر عملدرآمد کرنے کا پابند ہے، جس میں دیگر اقدامات کے علاوہ جماعت الدعوۃ، فلاح انسانیت فاؤنڈیشن، لشکر طیبہ، جیش محمد، حقانی نیٹ ورک اور افغان طالبان کی مالی معاونت کے راستے مسدود کرنا بھی شامل ہے، اس حوالے سے ایکشن پلان پر مذاکرات میں ناکامی کی صورت میں پاکستان کو بلیک لسٹ کردیا جائے گا۔

مزید پڑھیں: ’ایف اے ٹی ایف کا اقدام شرمندگی کا باعث لیکن معیشت پر اثر انداز نہیں ہوگا‘

ترجمان دفتر خارجہ نے اس بات کا اعادہ کیا کہ پاکستان ایکشن پلان پر عملدرآمد کے لے پر عزم ہے، جس کے مکمل نفاذ کے بعد اسے گرے لسٹ سے نکال دیا جائے گا۔

خیال رہے کہ قومی سلامتی کے 9 جون کو منعقدہ اجلاس میں ایکشن پلان کے نفاذ کی مدت میں توسیع کردی گئی تھی، جبکہ ایف اے ٹی ایف کو ضروری قانونی، ریگولیٹری اور آپریشنل اصلاحات کو نافذ کرنے کے لئے ملک سے اعلی سطحی سیاسی عزم کی ضرورت ہے۔

واضح رہے کہ پاکستان کو گرے لسٹ میں اندراج کرنے کے اقدام کو امریکا اور اس کے اتحادیوں برطانیہ، فرانس، اور جرمنی کی جانب سے اسپانسر کیا گیا تھا۔

امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ اس کے نتیجے میں پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں مزید تناؤ پیدا ہونے کا اندیشہ ہے، جو گزشتہ برس امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ساؤتھ ایشیا اور افغان پالیسی کے اعلان کے بعد سے مسلسل زوال کا شکار ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ایف اے ٹی ایف:’گرے لسٹ‘ میں پاکستان کا نام جون میں آئے گا، حکام کی تصدیق

تاہم ایک سوال کے جواب میں ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر محمد فیصل کا کہنا تھا کہ امریکا کے ساتھ تعلقات بہتری کی راہ پر ہیں، اور دونوں جانب سے باہمی تعلقات میں مشترکہ مفادات کے حصول کے لیے مذاکرات کیے جارہے ہیں۔