پاکستان

پاکستان میں تشدد کے خلاف مؤثر قانون سازی کا فقدان

پاکستان میں پائےجانے والے اس تاثر کو ختم ہونا چاہیے کہ جرم کی تفتیش کے دوران تشدد ایک قابل قبول امر ہے، این سی ایچ آر

اسلام آباد: قومی کمیشن برائے انسانی حقوق (این سی ایچ آر) نے تشدد کا شکار افراد کی حمایت کے عالمی دن کے موقع پر یہ انکشاف کیا کہ پاکستان میں تشدد کے خلاف جامع قانون سازی، اسکی نگرانی، درستی کے لیے میکانزم اور اس حوالے سے درست اعداد و شمار کا فقدان ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے این سی ایچ آر کمیشن کے رکن چوہدری محمد شفیق کا کہنا تھا کہ بحیثیت ایک ریاست پاکستان تشدد کے خلاف انسانی حقوق کنوینشن کا پابند ہے جس میں تشدد کو واضح طور پر بیان کیا گیا اور جرم قرار دیا گیا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ این سی ایچ آر کو گزشتہ برس پولیس تشدد کی سینکڑوں شکایات موصول ہوئیں جبکہ 58 کیسز کا کمیشن نے از خود نوٹس لیا جس میں سے 34 کیسز میں تشدد کا شکار خواتین تھیں، جبکہ 29 کیسز کو مسترد کردیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: ساجد مسیح تشدد کیس: ایف آئی اے اہلکاروں کے خلاف کارروائی کی تجویز

انہوں نے بتایا کہ این سی ایچ آر ایکٹ کے تحت کمیشن کے پاس ملٹری اور پیرا ملٹری فورسز کی جانب سے کی گئیں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات کا اختیار ہے۔

اس ضمن میں ریٹائرڈ سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس پی) عامر خان نیازی نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تھانوں میں تشدد کی روک تھام کے لیے انسانی حقوق کے افسران تعینات کیے گئے تھے اور اس کے بعد سے 25 پولیس افسران کو تشدد میں ملوث ہونے پرمعطل کیا جاچکا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ تشدد کا شکار متاثرہ افراد کی بحالی کے لیے ماہر نفسیات کی خدمات بھی حاصل کی گئیں۔

مزید پڑھیں: سکھر: ’بیٹوں نے تشدد‘ کے بعد بوڑھی ماں کو کچرے کے ڈھیر پر چھوڑ دیا

اس حوالے سے ڈپٹی انسپکٹر جنرل آف پولیس (جیل خانہ جات) نوید رؤف نے بتایا کہ شعبہ جیل خانہ جات نے بھی تشدد کا شکار افراد کے لیے ماہر نفسیات کی خدمات حاصل کر رکھی ہیں، ان کا کہنا تھاجیلوں میں تشدد کی روک تھام کے لیے ضروری ہے کہ شعبہ جیل خانہ جات کے ماتحت عملے میں اضافہ کیا جائے۔

اس حوالے سے ان کا مزید کہنا تھا کہ تشدد میں ملوث اہلکاروں کے خلاف محکمہ جاتی کارروائی کی جاتی ہے۔

ادھر کمیشن برائے قانون و انصاف کے سیکریٹری ڈاکٹر رحیم اعوان نے تجویز پیش کی کہ تشدد کے واقعات کے اعداد و شمار حاصل کرنے کے لیے صوبائی تعاون کی کمیٹی برائے انصاف کی مدد حاصل کی جائے جس کے ذریعے پر تشدد کارروائیوں کی نگرانی کی جاتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: خواتین پر تشدد کے خاتمے کیلئے کیا کرنا ہوگا؟

اس ضمن میں کمیشن برائے انسانی حقوق نے نیشنل پریس کلب کے سامنے مظاہرے کا انعقاد بھی کیا، جس میں تقسیم کیے گئے پمفلٹ میں ایچ آر سی پی نے سول سوسائٹی پر زور دیا کہ وہ ہر قسم کے تشدد کے خاتمے کے لیے سماجی اور سیاسی مباحثے کا آغاز کرے، تا کہ اس تاثر کو ختم کیا جاسکے کہ کسی جرم کی تفتیش میں تشدد کرنا ایک قابل قبول امر ہے۔

علاوہ ازیں کمیشن نے حکومت سے تشدد کے خلاف اقوامِ متحدہ کے کنوینشن کے نفاذ کا بھی مطالبہ کیا جس پر دستخط کرنے والے ممالک میں پاکستان بھی شامل تھا۔