پلاسٹک گردی: انسانی سہولت ماحولیات کے لیے تباہی سے کم نہیں
پلاسٹک گردی: انسانی سہولت ماحولیات کے لیے تباہی سے کم نہیں
یہ کہانی گزشتہ 60 سالوں کی ہے، جن میں ہم کوڑا کرکٹ پیدا کرنے والے بدترین معاشرے کا حصہ بن چکے ہیں۔ ہم نے اسکول میں پڑھا تھا کہ پانی، ہوا اور مٹی زندہ رہنے کے لیے ناگزیر ہیں مگر اب پلاسٹک کا استعمال ہماری روزمرہ زندگی میں اس قدر شامل ہوگیا ہے جیسے پلاسٹک کے بغیر بھی زندگی کا گزارا ممکن نہیں۔ لیکن سستا، ہلکا اور آسانی سے دستیاب پلاسٹک زمین کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن چکا ہے۔
دنیا میں پلاسٹک کو آئے 50 برس ہوچکے ہیں اور اب تو دنیا کے ہر کونے میں اس کی موجودگی کو دیکھا جاسکتا ہے۔ پاکستان میں 70ء کی دہائی تک پلاسٹک کا استعمال زیادہ عام نہیں تھا لیکن 80ء کی دہائی میں یکایک پلاسٹک کا استعمال عام ہونے لگا۔
آپ میں سے کچھ کو ضرور یاد ہوگا کہ پہلے لوگ جب دہی یا نہاری خریدنے جاتے تو اپنے ساتھ دھاتی برتن ساتھ لے جاتے تھے۔ حلوہ پوری کو خاکی کاغذ سے بنی تھیلیوں یا اخبار میں لپیٹ کر گاہک کو دی جاتی تھی اور پکوڑے اور پراٹھے بھی بالکل اسی طرح دیے جاتے تھے۔
کسی کو نان خریدنے جانا ہوتا تو اپنے ساتھ ایک چھوٹا کپڑا ساتھ لے کر جاتا اور نان کو اس میں لپیٹ کر گھر لاتا۔ دودھ خریدنے جاتے تو چھوٹی بالٹی ساتھ ہوتی یا پھر دودھ والا خود گھر آکر برتن میں دودھ اونڈیل جاتا اور پھر اسی برتن میں دودھ بوائل کرلیا جاتا تھا۔ اشیاء کو سیریمک یا مٹی کے پکے برتنوں میں ذخیرہ کیا جاتا، سودا سلف گھر لانے کے لیے کپڑے کی تھیلی استعمال کی جاتی۔ گوشت کو اخبار میں لپیٹ کر دیا جاتا۔ مارکیٹ سے سامان گھر لانے کے بعد کپڑے کی تھیلی کو دھویا جاتا اور یوں وہ تھیلی دوبارہ استعمال کے لیے تیار ہوتی۔
پڑھیے: 50 ممالک میں ’پلاسٹک آلودگی‘ کے خلاف کریک ڈاؤن
کلنکس اور ہسپتالوں میں سرنجز شیشے کی ہوا کرتیں اور انہیں کھولتے پانی میں اسٹرلائزڈ کیا جاتا، کئی مہینوں یا برسوں تک انہیں متعدد بار استعمال کیا جاتا۔ یہاں تک کہ بچوں کی فیڈرز بھی شیشے کی بنی ہوتی تھیں اور مائیں انہیں بار بار دھوتیں اور اسٹرلائزڈ کرتیں، یوں فیڈرز کے قابلِ استعمال ہونے تک مائیں ان میں اپنے بچوں کو دودھ پلاتی تھیں۔ مائیں اپنے بچوں کے لیے قابلِ دھلائی (واش ایبل) ڈائپرز استعمال کرتیں۔ استعمال شدہ ڈائپرز کو گرم پانی میں سوڈا اور ڈیٹول ملا کر دھویا جاتا تھا۔ یہ تھا طرزِ زندگی کا وہ معیار جس سے زیادہ کوڑا کرکٹ پیدا نہیں ہوتا تھا۔