پاکستان

مالی سال 18-2017 میں خسارے کی شرح میں ہدف سے زائد اضافہ

سابق وزیرخزانہ مفتاح اسمٰعیل نے اپنی آخری بجٹ تقریر میں یقین دہانی کرائی تھی کہ مالی خسارے کی شرح 5.5فیصد سے کم رہے گی۔

حکومتی بلند و بالا دعووں کے باوجود مالی سال 18-2017 کے لیے خسارے کی شرح اپنے ہدف 4.1 فیصد سے کئی زیادہ 6.1 فیصد رہی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سابق وزیرِ خزانہ مفتاح اسمٰعیل نے گزشتہ حکومت کی آخری بجٹ تقریر میں یقین دہانی کرائی تھی کہ مالی خسارے کی شرح 5.5 فیصد سے کم رہے گی۔

مفتاح اسمٰعیل کی جانب سے چین سے موصول ہونے والے ڈیڑھ سے 2 ارب ڈالر کے سرمائے کا وعدہ ایک سنہرا خواب ثابت ہوا جبکہ مالی سال کے اختتام سے ایک ہفتے قبل بین الاقوامی قرضوں کی ادائیگی ایک حقیقت ثابت ہوئی، یہاں تک کہ ملک میں چینی سرمایہ کاری کو بھی کچھ حد تک خطرات لاحق ہوگئے۔

اپنے پہلے عوامی خطاب میں نگراں وزیرِ خزانہ شمشاد اختر نے بتایا کہ پاکستان کا مالی خسارہ 6.1 فیصد جبکہ عوامی قرضے 70 فیصد ہیں۔

مزید پڑھیں: وفاقی بجٹ میں خسارہ کیوں بڑھ رہا ہے؟

ان کا مزید کہنا تھا کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی آمدن میں کمی، صوبوں سے مختص کردہ رقم سے کم سرپلس اور حکومت کے مختص کردہ اخراجات سے زیادہ اخراجات کی وجہ سے ملکی خسارے کی شرح مالی سال کے اختتام تک 7 فیصد تک پہنچ جائے گی۔

اس حقیقت کے باوجود پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) اخراجات 10 کھرب ایک ارب روپے مختص ہونے کے باجودہ 22 جون تک 7 کھرب 52 ارب روپے تک محدود رہے۔

زرِ مبادلہ کی شرح میں تنزلی آرہی ہے جس کی وجہ سے قرضوں میں اضافہ ہورہا ہے جبکہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ریکارڈ 16 بلین ڈالر تک پہنچ گیا جو ملکی مجموعی پیداوار کا تقریبا 6 فیصد ہے، علاوہ ازیں مالی اور زرعی سیکٹر خطرناک زون کی جانب بڑھ رہا ہے۔

حال ہی میں عالمی مالیاتی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی موڈیز انویسٹرز سروس نے زرِمبادلہ کے کم ہوتے ذخائر کی وجہ سے پاکستان کی درجہ بندی مستحکم سے کم کر کے منفی کردی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: آئندہ مالی سال کا بجٹ ’ٹیکنوکریٹک‘ ہوگا، مفتاح اسمٰعیل

حب پاور کمپنی کے سی ای او نے سینیٹ کمیٹی کے سامنے بتایا تھا کہ ان کی کمپنی پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبے کے تحت 3 ارب 50 کروڑ ڈالر کے توانائی منصوبوں پر کام کر رہی تھی تاہم ساہیوال توانائی منصوبے پر عدم ادائیگی کی وجہ سے چینی مارکیٹ پر پڑنے والے اثرات کی وجہ سے یہاں کام بند کیا جاچکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ نگراں حکومت سے معاملات میں مداخلت کرنے کی درخواست دی ہے، تاہم اگر ایسا نہیں ہوتا تو پھر بیرونی سرمایہ کاری میں شراکت داریوں کے ختم ہونے کا خدشہ ہے۔

کے الیکٹرک کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ انہوں نے یہ محسوس کر لیا تھا کہ نرخ اور سیکیورٹی کلیئرنس پر سست پیش رفت اور وضاحت کی عدم موجودگی کی وجہ سے شنگھائی الیکٹرک لمیٹڈ (ایس ای ایل) ابراج گروپ سے کے الیکٹرک کی خریداری سے پیچھے ہٹ سکتا ہے۔

خیال رہے کہ ایس ای ایل نے کے الیکٹرک کو اپڈیٹ کرنے کے لیے بجلی کی ترسیل کار کمپنی میں 9 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا وعدہ کیا تھا۔