برتر اور کمتر کیوں اور کیسے؟ پنجاب میں ذات برادری کا تاریخی پس منظر
زراعت صدیوں سے پنجاب کا اہم پیشہ رہا ہے۔ پنجابیوں کی بڑی تعداد چونکہ اس ذریعہ آمدن سے وابستہ ہے لہٰذا ان کی زیادہ تر آبادی کاشتکاری کی غرض سے دیہاتوں میں ہی آباد ہے۔
پنجاب کے زیادہ تر باسیوں کے بڑے شہروں سے رابطے ایک منڈی کی حیثیت میں ہیں، جہاں وہ اپنی زرعی اجناس کی خرید و فروخت کرتے ہیں۔
موجودہ پنجابی دیہات اور اس کی سماجی ساخت واضح انداز میں 2 حصوں میں تقسیم نظر آتی ہے۔ پہلا زمیندار طبقہ جو براہِ راست کاشتکاری سے وابستہ ہے اور اس کے ذمہ ہے کہ وہ بوائی اور کٹائی کے سیزن میں کھیتوں میں بنیادی کارکن کی حیثیت سے موجود ہو۔ دوسرا کمی یا غیر کاشتکار طبقہ ہے، جو شاید براہِ راست کاشتکاری سے تو وابستہ نہیں ہے مگر اس طبقے کی حیثیت اس معاون کی ہے جس کے بغیر زراعت کا نظام ممکن نہیں ہوسکتا۔
کمی یا کارکن کسے کہتے ہیں؟
کمی یا کارکن طبقے کو دیہاتی سماج میں براہِ راست کاشتکار نہ ہونے کی بناء پر وہ سماجی برتری حاصل نہیں ہے جو ایک زمیندار کو ملتی ہے، تاہم وہ اپنی حیثیت میں زرعی نظام کا ایسا اٹوٹ حصہ ہے جس کی اس شناختی حیثیت نے اس نظام کو مضبوطی سے باندھ دیا ہے۔ زمین اور کاشتکاری سے وابستگی کی بناء پر ملنے والی سماجی عزت کے اس نظام نے قدیم زراعت کے اصول کو اس قدر مضبوط کردیا ہے کہ اگر روایتی زمینداری نظام کو یکسر توڑ نہ دیا جائے تو شاید ذات پات اور پیشوں سے شناخت رکھنے والا سماجی نظام بدلا نہ جاسکے۔
سماجی و سیاسی تناظر میں ایک روایتی طرز کے پنجابی دیہات میں یہ کارکن جنہیں عرف عام میں کمی کہا جاتا ہے بہت اہم اور بنیادی حیثیت کے حامل ہیں جو اپنے دیہات کی زرعی اور سماجی ساخت کو برقرار رکھنے کے کام میں مصروف ہیں۔
19ویں صدی میں سکھا شاہی دور کی کہانی
اگر جدید تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو 19ویں صدی میں سکھا شاہی کے دور میں بھی پنجاب کے دیہات کو اپنی روزمرہ زندگی جینے کے لیے اپنے کمیوں کی ہر وقت ضرورت رہا کرتی تھی۔ جہاں یہ لوگ زراعت کے لیے ہل اور درانتی جیسے بنیادی اوزار بنانے کے ساتھ ساتھ کپڑا بننے، سینے، رنگنے، جوتیاں بنانے اور اسی طرح کی دیگر ضروریاتِ زندگی کو پورا کرنے میں مصروف رہتے تھے۔
پڑھیے: جب انگریز آزاد پنجاب پر قابض ہوا
اس تحریر میں 19ویں صدی کے روایتی پنجابی زرعی نظام میں کمیوں اور تفریح مہیا کرنے والی ذاتوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی اس نظام میں اہمیت اور کردار کو سمجھنے کی ایک کوشش کی گئی ہے۔ اس تجزیے سے ہم یہ پتہ لگانے کی کوشش کریں گے کہ یہ نظام کس قدر مضبوط تھا کہ آج بھی اپنی اسی شکل میں برقرار ہے۔
19ویں صدی میں روایتی پنجابی دیہات میں زمیندار کے علاوہ لوہار، ترکھان، نائی، کمہار، چمار، مصلی، میراثی، نٹ، جولاہا اور ماچھی جیسے دیگر پیشے بھی موجود تھے اور یہ سماج میں کمتر سمجھے جاتے تھے۔ جو لوگ ان پیشوں سے وابستہ تھے ان کے لیے یہ پیشے ہی ان کی ذات تھی اور اسی مناسبت سے وہ سماج میں کمتر حیثیت کے مالک تھے۔
خدمت گاروں کو کمتر کیوں سمجھا جاتا تھا؟
زراعت میں ان افراد کی حیثیت بنیادی تھی اور ان کے بغیر زرعی نظام کا چلنا ناممکن تھا لیکن چونکہ ان کی حیثیت خدمت گار کی تھی لہٰذا انہیں کمتر سمجھا جاتا تھا۔ یہ افراد دیہات کے کسی ایک فرد کے ملازم شمار نہیں ہوتے تھے بلکہ ہر پیشہ ور اپنی اپنی صلاحیتوں اور فن کے مطابق پورے گاؤں کی خدمت کرتا تھا اور بدلے میں فصل آنے پر زمیندار اور دیگر کمیوں سے اپنا حصہ وصول کرتا تھا۔ محنت کا حق وصول کرنے کا یہ طریقہ ’سیپداری‘ کہلاتا تھا اور فصل کی کٹائی کے موقعے پر ہر کمی زمیندار سے اپنی سیپ وصول کیا کرتا تھا جو کہ مجموعی پیداوار کا 15 سے 20 فیصد تک بن جاتا تھا۔
خدمت گاروں کی ذمہ داریاں
اہم سماجی موقعوں، جیسے بچے کی پیدائش، فوتگی، خوشی، غمی، فصلوں کی کاشت یا کٹائی کے دوران ان پیشہ ور کمیوں کو اپنی صلاحیت کے حساب سے کام کرنا ہوتا تھا اور پھر وہ اپنی محنت کے بدلے معاوضہ وصول کیا کرتے جسے ’لاگ‘ کہا جاتا تھا۔
یہ پیشہ ور لوگ بھی اپنے کام کرنے کی صلاحیت کے مطابق سماج میں مختلف درجوں کے مالک سمجھے جاتے تھے۔ مثلاً سنار، لوہار، ترکھان، جولاہے اور کمہار معاشرے میں عزت دار کمی تھے جبکہ چمار اور موچی کم تر درجے کے کمی شمار ہوتے تھے۔ نچلے درجے کے کمیوں کو ہندوؤں کے ذات پات کے نظام میں شودھروں کی حیثیت تھی۔ جولاہے اور کمہار عزت دار کمیوں میں کم درجے کے حامل تھے جبکہ انہیں چماروں اور موچیوں سے بڑا مقام حاصل تھا۔