پاکستان

ڈان اخبار کی ترسیل میں رکاوٹ آئین کے آرٹیکل19 کی خلاف ورزی قرار

اخبار کی ترسیل میں رکاوٹوں کی اطلاعات پر ملک بھر سے صحافیوں، سیاستدانوں، اور سول سوسائٹی کی جانب سے ردعمل کا سلسلہ جاری۔

اسلام آباد: ڈان اخبار کی ترسیل میں رکاوٹ ڈالنے سے متعلق خبر شائع ہونے کے بعد ملک بھر کے صحافیوں، مختلف سماجی تنظیموں، سیاستدانوں اور دائیں بازو کے فعال کارکنان کی جانب سے شدید مخالفت سامنے آئی ہے، انہوں نے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو جبراً خاموش کرانے کی کوششوں، صحافیوں پر تشدد اور اغوا سمیت ٹی وی چینلز کی نشریات روکے جانے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز ڈان اخبار کی انتظامیہ کی جانب سے بیان سامنے آیا تھا جس میں بتایا گیا کہ گزشتہ ماہ سے مخلتف علاقوں اور شہروں میں اخبار کی ترسیل میں رکاوٹ ڈالنے کا سلسلہ جاری ہے، ہاکرز کو ڈان اخبار کی تقسیم کے دوران مسلسل دھمکیاں مل رہی ہیں اور جسمانی تشدد سے خوفزدہ کر کے ہراساں کیا جارہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ڈان اخبار کی ترسیل میں رکاوٹیں پیدا کرنے کا سلسلہ جاری

اس ضمن میں انتظامیہ کی جانب سے نگراں وزیر اعظم جسٹس (ر) ناصرالملک ، چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر باجوہ اور چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار سے اس صورتحال کا نوٹس لینے کی درخواست کی گئی تھی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مذکورہ معاملے پر ردعمل دیتے ہوئے کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹ (سی جے پی) ایشیا نے مذمتی بیان جاری کیا اور پاکستانی حکام پر زور دیا کہ ڈان اخبار کی ترسیل میں حائل مشکلات کو دور کریں، میڈیا کے خلاف مذموم کارروائیوں سے جولائی میں ہونے والے انتخابات کی شفافیت پر اثر پڑے گا۔

اس حوالے سے سینیٹ کے سابق چیئرمین رضا ربانی کا کہنا تھا کہ صحافت مخالف کارروائیاں آئین کے آرٹیکل 19 کی خلاف وزری ہیں،‘صحافت کو آزاد ہونا چاہیے‘۔

مزید پڑھیں: پاکستان میں ڈان اخبار کی ترسیل میں رکاوٹ کی اطلاعات

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس قسم کے اقدامات آرٹیکل 19(اے) کے تحت حاصل بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہیں، ہر شہری کو عوامی مفاد کے معاملات جاننے کا حق حاصل ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما کا کہنا تھا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ’وفاق کے ستونوں کو کمزور کرنے کی کوششوں کے پیچھے کوئی خفیہ ہاتھ ملوث ہے‘۔

اس حوالے سے عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے سینیئر رہنما افراسیاب خٹک نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ٹوئٹ کے ذریعے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’اختلاف رائے کی آوازوں کو دبانا جمہوریت کا قتل ہے، ہماری آنکھوں کے سامنے فاشسٹ طریقوں سے ایک معتبر اور موقر روزنامے کا گلہ گھونٹا جارہا ہے، عدلیہ، سیاسی جماعتیں، اور سول سوسائٹی اس معاملے کا نوٹس نہیں لے رہیں، اس کے خلاف آواز اٹھائی جانی چاہیے اس سے قبل کہ بہت دیر ہوجائے‘۔

مذکورہ معاملے پر سابق وزیر اطلاعات اور سپریم کورٹ کی جانب سے تشکیل دیے گئے میڈیا کمیشن کے رکن جاوید جبار نے بیان دیتے ہوئے ڈان اخبار کی ترسیل میں رکاوٹیں ڈالنے کی کارروائیوں کی مذمت کی۔

ان کا کہنا تھا کہ انہیں باوثوق ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ اشتہاری ایجنسیز، جو ذرائع ابلاغ کی آمدنی کا بڑا ذریعہ ہوتی ہیں، کو ٹیلی فون پر رقم کی ادائیگیاں روکنے کی ہدایات دی گئیں تاکہ میڈیا کے لیے مشکلات پیدا کی جاسکیں۔

دوسری جانب سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر شیری رحمان کا کہنا تھا کہ حکومت کو ذرائع ابلاغ کو درپیش رکاوٹوں پر ایکشن لینا چاہیے، ان کامزید کہنا تھا کہ ہر شخص کو اس کی مرضی کا اخبار خریدنے اور پڑھنے کا حق حاصل ہے، اور کسی بھی شہری کو اس حق سے زبردستی روکنا آئین کے آرٹیکل 19 کی خلاف ورزی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: میڈیا کی آزادی محدود کرنے کی کوششوں پر سی پی این ای کا اظہار تشویش

اس ضمن میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی ترجمان اور سابق وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ آزاد پریس تہذیب یافتہ معاشروں اور جمہوریت کا بنیادی ستون ہے، جبکہ آزادانہ صحافت اور آزادی اظہار رائے مسلم لیگ (ن) کا منشور میں شامل ہے۔

اس سلسلے میں مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر مشاہد حسین سید نے بھی سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ٹوئٹ کے ذریعے بیان دیا کہ ڈان کی بنیاد قائد اعظم محمد علی جناح نے رکھی، جو تحریک آزادی کا محافظ تھا، اب ’سرکاری طور پر تصدیق شدہ سچائی‘ نہ بتانے کے جرم میں دباؤ کا شکار ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ڈان کے چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) حمید ہارون اور ایڈیٹرز کو سلام ہے جو آئین کے آرٹیکل 19 کے تحت حاصل حقوق کی پاسداری کے لیے ڈٹے ہوئے ہیں۔