نیب کا ڈی ایچ اے، بحریہ ٹاؤن اور سی ڈی اے کےخلاف تحقیقات کا فیصلہ
اسلام آباد: قومی احتساب بیورو (نیب) نے ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) ویلی، اورفیز 2 ایکسٹینشن کے منصوبوں میں مبینہ طور پر 62 ارب روپے کی جعلسازی پر، ڈی ایچ اے اسلام آباد، بحریہ ٹاؤن اور کیپٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کے خلاف تحقیقات کا آغاز کردیا۔
انسدادِ بدعنوانی کے ادارے کی جانب سے سابق وزیراعظم نواز شریف کے داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر اور پاکستان مسلم لیگ (ن) خیبر پختونخوا کے صدر امیر مقام کے خلاف بھی آمدنی سے زائد اثاثے بنانے پر تحقیقات کا فیصلہ کیا گیا۔
دوسری جانب نیب نے خوشحال پاکستان پروگرام فنڈز میں نواز شریف کے خلاف کیس بند کردیا، جو پہلے ہی 4 مختلف مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: نیب کا بحریہ ٹاؤن کراچی پر 90ارب روپے کی زمین پر قبضے کا الزام
واضح رہے کہ مذکورہ فیصلے نیب چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال کی سربراہی میں منعقدہ ایگزیکٹو بورڈ کے اجلاس میں کیے گئے۔
نیب کی جانب سے باضابطہ طور پر جاری کی گئی پریس ریلیز میں کہا گیا کہ ان تین اداروں کی انتظامیہ کی جانب سے ڈی ایچ اے ویلی اور ڈی ایچ اے فیز 2 ایکسٹینشن کے ترقیاتی کاموں میں مبینہ طور پر غفلت برتی گئی، جس کی وجہ سے لاکھوں افراد کا نقصان ہوا جنہوں نے اپنی محنت سے کمائی گئی رقم سے ان منصوبوں میں سرمایہ کاری کی تھی۔
واضح رہے کہ اکتوبر 2016 میں سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے نیب کو ڈی ایچ اے ویلی فراڈ میں ملوث ریٹائرڈ ملٹری افسران، اور سویلین افراد کے خلاف کارروائی کرنے کے احکامات دیے تھے، تاہم اس وقت نیب کی جانب سے کوئی خاص اقدام دیکھنے میں نہیں آیا تھا۔
مزید پڑھیں: ڈی ایچ اے اسکینڈل: کیانی کے خلاف تحقیقات کی درخواست
ایک اعلیٰ عہدیدار نے نام افشا نہ کرنے کی شرط پر ڈان سے گفتگو میں بتایا کہ جولائی 2015 میں پاک فوج کے حکام نے سابق چیئرمین نیب قمر زمان چوہدری کو بلا کر اس معاملے کی تحقیقات میں بیورو کو مکمل حمایت فراہم کرنے کی یقین دہانی کروائی تھی۔
خیال رہے کہ گزشتہ ایک ماہ میں نیب کی جانب سے بحریہ ٹاؤن کے سربراہ ملک ریاض کے خلاف انسدادِ بدعنوانی کے تحت کی جانے والی یہ دوسری کارروائی ہے۔
ڈی ایچ اے ویلی اسکیم پاک فوج کے شہدا کے لواحقین کے لیے ایک چھوٹے ڈیم ڈاڈھوچہ ڈیم کی جگہ پر بنائی گئی تھی، اور اس کے لیے زمین پنجاب حکومت نے فراہم کی تھی۔
مزید پڑھیں: بحریہ ٹاؤن کراچی میں بغیر این او سی تعمیرات کا انکشاف
یاد رہے کہ ڈی ایچ اے ویلی کے خلاف مقدمے کا آغاز راولپنڈی کے رہائشی لیفٹیننٹ کرنل (ر) محمد طارق کی جانب سے ستمبر 2010 میں دی گئی درخواست پر کیا گیا، جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ ڈی ایچ اے ویلی ڈاڈھوچہ ڈیم کی زمین کے ساتھ جھیل کے لیے مختص جگہ پر تعمیر کی جارہی ہے۔
مذکورہ درخواست کی تصدیق 13 جون 2011 کو کی گئی جس کے بعد نیب نے باقاعدہ طور پر 3 جولائی 2012 سے معاملے کی چھان بین کا آغاز کردیا تھا۔
خیال رہے کہ جعلسازی کے اس مقدمے میں سابق آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کے بھائیوں اور آرمی کے کچھ ریٹائر افسران کے نام بھی شامل ہیں، جن کی کمپنی کی خدمات ڈی ایچ اے ویلی اسکیم کی زمین فراہم کرنے کے لیے حاصل کی گئیں تھیں۔
یہ بھی پڑھیں: ڈی ایچ اے فراڈ کیس: تحقیقات کے لیے گرین سگنل
درخواست میں کہا گیا تھا کہ ڈی ایچ اے، بحریہ ٹاؤن، اور جائیداد کی تعمیر، خرید و فروخت کرنے والی کمپنی حبیبب رفیق، ایک معاہدے کے تحت مشترکہ طور پر کئی رہائشی اسکیموں کے منصوبوں میں ملوث ہے جن میں ڈی ایچ اے ویلی، ڈی ایچ اے فیز 2 ایکسٹیشن، ڈی ایچ اے ایکسپریس وے، اور راولپنڈی میں ڈی ایچ اے وِلا شامل ہیں۔
درخواست گزار کے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق ڈی ایچ اے ویلی کی مالیت ایک سو 10 ارب روپے، ڈی ایچ اے فیز 2 ایکسٹینشن کی 70 ارب روپے، ایکسپریس وے کی 50 ارب روپے، اور ڈی ایچ اے وِلا کی مالیت 100 ارب روپے ہے۔
درخواست گزار کا مزید کہنا تھا کہ ڈی ایچ اے فیز 2 تیار ہاؤسنگ سوسائٹی ہے جبکہ ڈی ایچ اے ویلی میں ترقیاتی کام کا آغاز ہونا ہے۔
نیب کی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی کہ جن لوگوں نے ڈی ایچ اے ویلی میں پلاٹ خریدے انہیں ڈی ایچ اے انتظامیہ نے جان بوجھ کر ڈی ایچ اے 1 اور بحریہ ٹاؤن کے مابین ترقیاتی کاموں کے معاہدے سے لاعلم رکھ کر بے وقوف بنایا۔
مزید پڑھیں: بحریہ ٹاؤن کراچی:الاٹمنٹ غیر قانونی قرار، پلاٹس کی فروخت روکنے کا حکم
خیال رہے کہ سال 2009 میں ڈی ایچ اے نے عوام سے حاصل شدہ تمام رقم 62 ارب روپے بحریہ ٹاؤن کے اکاؤنٹس میں جمع کروادی تھی، لیکن بحریہ ٹاؤن اس رہائشی اسکیم میں ترقیاتی کام کرنے میں ناکام رہا۔
یاد رہے کہ تقریباً ایک لاکھ 10 ہزار شہریوں، 41 ہزار حاضر سروس اور ریٹائرڈ فوجی افسران اور شہدا کے لواحقین کو اس جعلسازی کے ذریعے دھوکا دیا گیا، جبکہ مذکورہ زمین کا کل رقبہ ایک لاکھ 65 ہزار کنال ہے۔
یہ خبر 21 جون 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔