شہر اور شور
is blog ko Hindi-Urdu mein sunne ke liye play ka button click karen [soundcloud url="http://api.soundcloud.com/tracks/100576222" params="" width=" 100%" height="166" iframe="true" /]
شہر کا شور کہ جس میں آوازیں بھی کھو جاتی ہیں، دب جاتی ہیں یا پھر تیزی سےبھاگتے دوڑتے لوگوں کے پاؤں تلے کچلی جاتی ہیں۔
نا صرف آوازیں، صدائیں، فریادیں بلکہ احساسات اور جذبات بھی شہروں میں روند دیے جاتے ہیں۔ اس لیے شہروں میں آکر لوگ آوازوں کے جمِ غفیرمیں کہیں کھو جاتے ہیں۔ اپنی شدھ بدھ تو رہتی نہیں، اپنے اِردگِرد کو بھی بھُلا بیٹھتے ہیں۔
گاڑیوں کے ہارن، بسوں میں چلتی بے ہنگم ریکارڈنگ، بغیر سائلنسر کے چلتی موٹر سائیکلیں اور رکشوں کا شور جو ایک کان سے داخل ہوکر دوسرے کان سے جا نکلتا ہے۔
ہر پل دوڑتی بھاگتی ایمبولینسوں اور پولیس وینوں کے چیختے چلاتے سائرن کی آواز۔ کہیں نعرے تو کہیں احتجاج یا پھر کہیں سے تر تڑ چلتی گولیوں کی آوازیں جو کبھی غصے کے مارے تو کبھی خوشی میں بھی چلانے کا رواج بن گیا ہے۔ کہیں دن رات چلتے جنریٹر تو کہیں پانی کھینچنے کے لیے گھر گھر لگی موٹروں کا شور۔
ہر طرف سے چیختے چلاتے موبائل، کمپیوٹر بیپ یا پھر لاتعداد مسجدوں سے آتی اذانیں یا پھر مولوی صاحب کا وقت بے وقت لاؤڈاسپیکر کا استعمال۔ ٹی وی، ریڈیو جس سے کبھی دین کو خطرہ تھا اور اپنے مولوی حضرات مظاہروں میں ٹی وی سیٹ جلاکر اپنا کلیجہ ٹھنڈا کرتے تھے، اب اسی ٹی وی پر انہوں نے مستقل ڈیرے ڈال دیے ہیں اور شور کا ایک طوفان بپا کیا ہوا ہے۔
موسیقی جو کبھی مدھر ہوتی تھی، کانوں میں رس گھولتی تھی، اب ایک بے ہنگم شور میں تبدیل ہو چکی ہے۔ نا گانے والے کی آواز سنائی دیتی ہے۔ نا ہی یہ معلوم پڑتا ہے کے کون سا ساز بج رہا ہے۔ ڈرامہ دیکھنے کی کوشش کریں تو سوائے چیخنے چلانے اور رونے دھونے کے کچھ بھی سنائی نہیں دیتا۔
رہے نیوز چینلز تو وہ تو ہیں ہی بریکنگ کے لیے سو آپ کے دماغ کی توڑ پھوڑ میں وہ بھی پورا حصّہ ڈالتے ہیں، آخر ریٹنگز کا سوال ہے.
بچے ٹاک شوز تو وہ بھی ہیں گھر بیٹھے دنگل دیکھنے کے لیے۔ پہلے جو لوگ گلی محلے میں لگائی بجھائی کرکے مزے لیتے تھے۔ اب انہیں ٹی وی چینلز نے لاکھوں کی تنخواہ پر رکھ لیا ہے۔
جو جتنی زیادہ گالیاں دلواسکنے کا ماہر ہے۔ جو اپنے مہمانوں کو نوچنے کھسوٹنے اور سب کے سامنے درگت بنانے اور بے عزت کرنے میں طاق ہے اس کا معاوضہ اس سے بھی زیادہ ہے۔