ڈیلٹا کی اُجڑتی ہوئی حیات
ڈیلٹا کی اُجڑتی ہوئی حیات
کہتے ہیں کہ خوشیوں کا اظہار کرنا آسان ہوتا ہے کہ ڈھول تاشوں کی تال پر کون جمع نہیں ہوتا؟ مگر اس جہاں میں اکیلا کوئی نہیں ہے، اکیلی فقط خدا کی ذات ہے اور یہاں گنتی ’ایک‘ پر ختم ہوجاتی ہے۔ نام ہزاروں ہوسکتے ہیں مگر دوئی سے زیادہ یہاں کچھ ہے نہیں۔ مگر کہتے یہ بھی ہیں کہ خوشی کے پھول دل کے اوپر اُگتے ہیں مگر اُن کے رنگ کوئی اتنے زیادہ پائیدار نہیں ہوتے۔ دُکھ کی جڑیں آپ کے دل کے اندر تک پیوستہ ہوتی ہیں اور ان کا درد بھی گہرا ہوتا ہے۔ دُکھوں کا نہ تو رنگ ہے اور نہ ہی پھولوں کی صورت کھلتے ہیں، اس لیے نہ درد کو مرجھانے اور نہ ہی رنگ اُڑنے کی پریشانی ہوتی ہے۔ وہ بس سانس کی ڈوری تک آپ کے ساتھ جُڑا رہتا ہے۔
سکندرِ اعظم کتنا خوش نصیب تھا جس نے 22 صدیاں پہلے اُس دریائے سندھ کو دیکھا تھا جس کے بہاؤ میں سحر بستا تھا۔ ٹیکسلا سے سمندر تک اس کے کنارے حاکم اور حکومتیں تھیں۔ کہتے ہیں کہ سکندر نے کوئی اتنی بڑی عمر تو نہیں پائی مگر اُس کے 33 برس جو گزرے وہ ایک دیوانگی میں گزرے۔ اسی دیوانگی نے سکندر کو مجبور کیا تھا کہ وہ دریائے سندھ کو اُس جگہ دیکھے جہاں وہ سمندر سے جاکر ملتا ہے۔