دنیا

امریکی خاتون اول بھی ڈونلڈ ٹرمپ کی ظالمانہ پالیسی پر خاموش نہ رہ سکیں

غیر قانونی طور پر سرحد عبور کرنے والے تارکین وطن سے ان کے بچے جدا کرنے کا اقدام سخت ناپسند ہے۔ میلانیا ٹرمپ

امریکی خاتون اول میلانیا ٹرمپ نے اپنے خاوند اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی غیر قانونی طور پر سرحد پار کرنے والے پناہ گزینوں کو ان کے بچوں سے علیحدہ کرنے کی ظالمانہ پالیسی پر بالآخر خاموشی توڑ دی۔

واضح رہے کہ گزشتہ کئی روز سے ٹیلی ویژن اور آن لائن فورمز پر اس ظالمانہ قانون کے باعث بچھڑنے والے خاندانوں اور روتے بلکتے بچوں کی تصاویر شیئر ہونے کے بعد تنقید کا سلسلہ جاری ہے۔

امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے مطابق میلانیا ٹرمپ کی جانب سے بیان ان کی خاتون ترجمان اسٹفنی گریشم نے جاری کیا۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا: بارڈر پولیس نے والدین کو 2 ہزار بچوں سے محروم کردیا

بیان میں کہا گیا ہے کہ ’میلانیا ٹرمپ پناہ گزین خاندانوں سے ان کے بچے جدا کرنے کے عمل کو ناپسند کرتی ہیں اور انہیں امید ہے بارڈر کے اطراف دونوں فریقین پناہ گزینوں کے لیے اصلاحات نافذ کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے‘۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ ’ہم ایک ایسا ملک چاہتے ہیں جہاں قانون کی عملداری ہو لیکن ساتھ ہی ساتھ احساسات اور جذبات کا بھی خیال رکھا جائے‘۔

امریکی روزنامے واشگٹن پوسٹ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ میلانیا ٹرمپ کی جانب سے مذکورہ بیان سامنے آنے کے بعد ٹرمپ خاندان کی سب سے نمایاں خاتون ایوانکا ٹرمپ کی خاموشی پر سوالات اٹھ رہے ہیں جو اپنے والد ڈونلڈ ٹرمپ کی سرکاری مشیر بھی ہیں اور خاندان کے معاملات کو اپنی ترجیح قرار دیتی ہیں۔

مزید پڑھیں: امریکا سے تیسری بار بے دخلی، میکسیکن شہری کی خودکشی

واضح رہے کہ امریکی ادارے ہوم لینڈ سیکیورٹی کے مطابق گزشتہ 6 ہفتوں میں امریکی سرحد پرغیر قانونی تارکین وطن کے خلاف کریک ڈاؤن کے نتیجے میں تقریباً 2 ہزار بچے اپنےوالدین سے بچھڑ چکے ہیں۔

اس سے قبل ہوم لینڈ سیکیورٹی اہلکاروں کی جانب سے غیر قانونی تارکین وطن والدین کی گود سے روتے ہوئے بچوں کو زبردستی لینے کی ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد مقامی سیاستدانوں، چرچ گروپ اور بچوں کے تحفظ پر مشتمل غیر سرکاری تنظیموں نے شدید برہمی کا اظہار کیا تھا۔

تاہم میلانیا ٹرمپ کی جانب سے جاری کردہ بیان میں ڈونلڈ ٹرمپ کی ’عدم برداشت‘ کی پالیسی کو براہ راست تنقید کرنے سے گریز کیا گیا جس کے تحت پناہ گزینوں کے بچوں کو ان سے جدا کردیا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا: 50 لاکھ تارکین وطن کیلئے امیگریشن اصلاحات کا اعلان

دوسری جانب امریکا کے سابق صدر جارج ڈبلیو بش کی اہلیہ اور سابق خاتون اول لارا بش نے بھی ٹرمپ انتظامیہ کی اس متنازع پالیسی کی مذمت کی۔

برطانوی خبر رساں ادارے بی بی سی کے مطابق امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے لیے لکھے گئے ایک مضمون میں لارا بش نے والدین سے ان کے بچے جدا کرنے کے اقدام کو ظالمانہ، بدسلوکی اور تکلیف دہ قرار دیا۔

اپنے مضمون میں ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ تصاویر جنگ عظیم دوئم کے دوران امریکی اور جاپانی حراستی مراکز کی یاد دلاتی ہیں جو امریکی تاریخ کا شرمناک ترین پہلو تھا‘۔

اس سلسلے میں ڈونلڈ ٹرمپ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ایک ٹوئٹ کے ذریعے اس پالیسی کا ذمہ دار ڈیموکریٹس کے بنائے ہوئے قانون کو قرار دیا تھا،اور ساتھ ہی ریپبلکن ارکان پر نئی قانون سازی کرنے کے لیے بھی زور دیا۔

جبکہ اس معاملے پر ڈیموکریٹک پارٹی کی منتخب اراکین کا کہنا ہے کہ کوئی قانون سرحد پر والدین سے ان کے بچے جدا کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔

خیال رہے کہ امریکی حکام نے والدین سے علیحدہ کیے ہوئے بچوں کو ٹیکساس کے صحرا میں ٹینٹ سٹی قائم کر کے وہاں منتقل کرنے کا منصوبہ ظاہر کیا ہے جہاں عموماً درجہ حرارت40 ڈگری سینٹی گریڈ رہتا ہے، جبکہ اس اعلان کے خلاف بڑی تعداد میں لوگوں نے پہلے سے قائم اس قسم کے ٹینٹ سٹی کی جانب مارچ بھی کیا اور احتجاج ریکارڈ کرایا۔