پاکستان کے وفاق کے زیرِ انتظام علاقوں کو عام طور پر 'علاقہ غیر' کہا جاتا ہے۔ مگر قبائلی لوگوں کی نظر میں یہ علاقہ یاغستان کہلاتا ہے، یعنی جہاں کوئی حکومت نہ ہو۔
اکثیریتی طور پر پہاڑی سلسلوں پر مشتمل 27 ہزار مربع کلومیٹر پر باجوڑ سے جنوبی وزیرستان تک پھیلا ہوا قبائلی خطہ اب آئینِ پاکستان میں تیز تر انداز میں متعارف کروائی گئی 31 ویں ترمیم کے بعد خیبر پختونخواہ میں شامل ہوگیا ہے۔
اس کی وجہ سے آئینِ پاکستان میں سے ایک علیحدہ انتظامی یونٹ کے طور پر 'فاٹا' کا لفظ ختم ہو چکا ہے اور اب یہاں کے لوگ ایک صدی پرانے ظالمانہ قانون فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن (ایف سی آر) سے چھٹکارہ حاصل کر چکے ہیں جسے صدرِ پاکستان کے دستخط کردہ نئے عبوری گورننس ریگولیشنز (2018) میں "سیاہ قانون" قرار دیا گیا ہے۔
تقریباً 100 سالوں تک باقاعدہ دستاویزات اور ترقی سے محروم رہنے کے بعد یہ تاریخی ترمیم 60 سے 70 لاکھ قبائلی افراد کو مرکزی دھارے میں لا کر پاکستانی کے دیگر علاقوں کے ساتھ لا کھڑا کرے گی تاکہ یہ ترقی کر سکیں اور باقی کے پاکستان کو مہیا بنیادی سہولیات سے فائدہ اٹھا سکیں۔
یہ مرحلہ طویل اور صبر آزما ہوگا مگر امید ہے کہ جب ایک دفعہ چیزیں ٹریک پر آ جائیں گی تو اس سے یہاں کے لوگوں کے دیرینہ مسائل اور محرومیوں کا کافی حد تک ازالہ ہوگا۔
فاٹا میں 7 قبائلی ضلعے ہیں جنہیں عام طور پر ایجنسی کہا جاتا ہے جبکہ 3000 دیہات ہیں جن میں کوئی 50 لاکھ کے قریب افراد مقیم ہیں۔ 4 فیصد سے بھی کم آبادی باقاعدہ قائم شدہ قصبوں میں رہتی ہے چنانچہ یہ پاکستان کا سب سے زیادہ دیہی انتظامی یونٹ ہے۔
مجموعی شرحِ خواندگی 30 فیصد سے بھی کم ہے جبکہ باقی ملک میں 56 فیصد ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق 70 فیصد سے زیادہ آبادی معمولی زراعت پر منحصر ہے۔ اوسط فی کس آمدنی تقریباً 1 ڈالر یومیہ ہے جو کہ قومی فی کس آمدنی کا نصف ہے۔
یہ صورتحال یہاں کے لوگوں کی موجودہ حالتِ زار کی عکاس ہے جنہیں بار بار دربدری کی وجہ سے ذہنی و جسمانی پریشانی اٹھانی پڑتی ہے۔ یہ لوگ ایسے 'علاقہ غیر' میں پھنسے ہوئے ہیں جہاں زندگی تھم چکی ہے۔
حکومت کے لیے سب سے مشکل کام عام ملک کے دیگر حصوں میں موجود انفراسٹرکچر کی ان علاقوں میں عدم موجودگی کے پیشِ نظر قبائلی افراد کو لاحق مسائل اور انہیں درپیش مشکلات کے حوالے سے ترجیحات کا تعین، اور ان کے غیر تسلیم شدہ مطالبات کی تکمیل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قبائلی خطہ مسائل اور مشکلات کا ایک بہت بڑا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے مگر یہاں کئی مواقع اور وسائل بھی موجود ہیں جو خود سے فائدہ اٹھائے جانے کے منتظر ہیں۔
دوسرے الفاظ میں کہیں تو پائیدار امن کا تعلق فاٹا میں زرعی پیداوار میں اضافے سے ہے۔
زرعی منظرنامہ
زراعت فاٹا کے تمام اضلاع میں ایک بنیادی وسیلہ ہے کیوں کہ 65 فیصد سے زیادہ آبادی اپنی خوراک کے لیے براہِ راست اس پر منحصر ہے۔ شمال سے جنوب تک زراعت کے رجحانات میں معمولی رد و بدل کے ساتھ زیادہ تر آبادی فصلوں کی پیداوار، مویشی بانی، پھلوں کے باغات بالخصوص سیبوں اور سبزیوں میں مشغول ہے۔
27 لاکھ 20 ہزار ہیکٹر کے مجموعی معلوم رقبے میں سے زیرِ زراعت رقبہ صرف 1 لاکھ 40 ہزار ہیکٹر کے قریب ہے۔ آبپاشی سے فائدہ حاصل کرنے والی زمین کوئی 80 ہزار ہیکٹر ہے جبکہ غیر آباد رقبہ 25 لاکھ 80 ہزار ہیکٹر کے قریب ہے۔ برباد پڑی زمینیں جنہیں آباد کیا جا سکتا ہے، ان کا رقبہ 1 لاکھ 80 ہزار ہیکٹر کے قریب ہے۔