لکھاری کتاب گورننگ دی ان گورنیبل اور سی پیک اینڈ پاکستانی اکنامی کے مصنف ہیں۔
اس بات میں شک نہیں کہ 21ویں صدی میں ترقی اور خوشحالی کی بنیاد نالج اکنامی پر قائم ہے۔ اس کا ثبوت ہم پہلے ہی جاپان، کوریا، تائیوان، سنگاپور وغیرہ کی صورت میں دیکھ چکے ہیں۔
چین بھی اب اسی راستے پر چل پڑا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر ممالک نے اپنے اعلیٰ تعلیمی و تحقیقی اداروں پر بے حد سرمایہ کاری کی ہے، اور نوجوان لڑکوں و لڑکیوں کی ایک بڑی تعداد کو اعلیٰ تعلیم، بالخصوص سائنس، ٹیکنالوجی، انجینیئرنگ اور میتھس (STEM) کی تعلیم کے لیے دوسرے ممالک بھیجا ہے۔
ان نوجوان سائنسدانوں نے ٹاپ یونیورسٹیوں میں پڑھا، جدید ترین لیبارٹریوں میں کام کیا، اپنے شعبوں کے ماہرین کے ساتھ مل کر تحقیق کی، اور یہ تحقیقات مایہ ناز تحقیقی جریدوں میں شائع کروائیں۔
کوریا نے 1980ء کی دہائی میں امریکا اور یورپ تک مشنز بھیجے تاکہ وہاں موجود کورین سائنسدانوں کو خطیر رقومات کے پیکجز دے کر کوریائی تعلیمی اور تحقیقی اداروں کی جانب راغب کیا جاسکے۔
حال ہی میں چین نے تھاؤزنڈ ٹیلنٹس پروگرام شروع کیا ہے جس کا ہدف وہ چینی شہری ہیں جو امریکا اور دنیا کی دیگر اعلیٰ ترین یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرچکے ہیں۔ ملک واپس آنے پر انہیں پُرکشش بونس، ریسرچ فنڈز کی گارنٹی، کافی تعداد میں تکنیکی اسٹاف اور اپنے شعبہءِ مہارت میں نوجوان طلباء کو تربیت دینے کا موقع دیا جاتا ہے۔ انہیں رہائش، خوراک اور منتقلی پر سبسڈیز دی جاتی ہیں۔ ان کے شریکِ حیات کو یقینی ملازمت فراہم کی جاتی ہے اور انہیں ان کے آبائی علاقوں میں باقاعدگی سے بھیجا جاتا ہے۔
پڑھیے: رینکنگ اور ہماری یونیورسٹیاں
چنانچہ اس میں چنداں حیرت کی بات نہیں کہ چینی کمپنیاں علی بابا اور ٹین سینٹ سائنسی ٹیلنٹ کے سب سے بڑے مراکز بن چکی ہیں۔ ریسرچ اینڈ ڈیویلپمنٹ پر چین کی سرمایہ کاری 1991ء میں 9 ارب ڈالر سے بڑھ کر 409 ارب ڈالر ہوگئی ہے جو کہ امریکا کے 485 ارب ڈالر کے قریب ہے۔ چین فی الوقت اپنی مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کا 2.4 فیصد ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ پر خرچ کر رہا ہے۔ نیشنل سائنس بورڈ کے مطابق چین اس سال کے اختتام تک امریکا کو پیچھے چھوڑ دینے کے راستے پر گامزن ہے۔
2016ء میں ایسا پہلی بار ہوا کہ سال بھر میں چین نے امریکا سے زیادہ سائنسی اشاعتیں کیں۔ چین نے بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ سائنسی خدمات انجام دینے والے سائنسدانوں کو بھی اپنی جانب راغب کیا ہے۔ یہ ماہرین مقامی سائنسدانوں کے ساتھ علم پیدا کرنے اور بانٹنے میں تعاون کرتے ہیں۔
اس کے مقابلے میں پاکستان میں صورتحال کیا ہے؟ ہمارے پاس اعلیٰ تعلیم یافتہ ٹیلنٹ کم سے کم ہوتا جا رہا ہے۔ 90ء-1989ء میں تقریباً 7 ہزار 10 پاکستانی طلباء امریکی یونیورسٹیوں میں زیرِ تعلیم تھے جبکہ ان کے مقابلے میں ہندوستانی طلباء کی تعداد 26 ہزار 240 تھی، یعنی 1:4 کا تناسب تھا۔
2014-ء15ء میں یہ فرق حیران کن حد تک بڑھ گیا ہے اور 1 لاکھ 32 ہزار 888 ہندوستانی طلباء کے مقابلے میں اب صرف 5 ہزار 354 پاکستانی طلباء امریکا میں موجود ہیں، یعنی 1:25 کا تناسب ہے۔
زیادہ تر ہندوستانی طلباء صفِ اول کی یونیورسٹیوں میں STEM کی اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ہندوستان سے تعلق رکھنے والے اساتذہ اور ریسرچ سائنسدانوں کی تعداد ہزاروں میں ہے جبکہ ان کے مقابلے میں پاکستانی صرف انگلیوں پر گننے جتنے ہیں۔ کراچی میں انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (آئی بی اے) کے لیے اساتذہ کی بھرتی کے لیے جب میں تلاش کر رہا تھا تو میں نے جانا کہ امریکا کے ٹاپ 10 بزنس یونیورسٹیوں میں ہندوستان سے تعلق رکھنے والے 250 اساتذہ خدمات سرانجام دے رہے تھے جبکہ پاکستان کی نمائندگی صرف 4 نوجوان خواتین کر رہی تھیں۔
ہائیر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) نے پی ایچ ڈی کے لیے نوجوان پاکستانیوں کو غیر ملکی یونیورسٹیوں میں بھیجنا شروع کیا تھا۔ محدود فنڈنگ اور ہمارے طلباء کی جی آر ای امتحان کلیئر کرنے میں مشکلات کی وجہ سے وہ زیادہ تر یورپی اور چینی یونیورسٹیوں تک ہی پہنچ پاتے ہیں۔ اس میں کچھ غلط نہیں ہے، مگر ان ممالک میں کورس ورک اور جامع امتحانات نہیں ہوتے، جن کی وجہ سے یہ امریکی یونیورسٹیوں جتنے سخت مقابلے پر مبنی نہیں ہوتے جو اب بھی دنیا کی بہترین یونیورسٹیاں ہیں۔
مزید پڑھیے: خوشامد کریں ڈاکٹر بنیں
واپس آنے پر یہ طلباء پاکستانی یونیورسٹیوں کے بیوروکریٹک کلچر میں پھنس جاتے ہیں مگر ان میں سے سنجیدہ مزاج پھر بھی متانت اور محنت سے اپنا کام کرتے رہتے ہیں اور بین الاقوامی جریدوں میں تحقیق شائع کروانے میں کامیاب رہتے ہیں۔ اس کی عکاسی گزشتہ ایک دہائی میں پاکستانی محققین کے لکھے گئے ریسرچ پیپرز کی تعداد میں اضافے سے ہوتی ہے۔
میں انہیں سلیوٹ کرتا ہوں جو پیچھے رہ جانے سے خوفزدہ سیاسی اساتذہ کی بے حد مزاحمت کے باوجود اپنا کام جاری رکھتے ہیں۔ مگر ترقیوں کا بے لچک نظام انہیں اس بات کے لیے کوئی فوائد نہیں دیتا کہ وہ اپنا علم اور مہارت استعمال کرکے ملک کو لاحق مسائل حل کرکے اس کی مسابقتی صلاحیت بڑھائیں۔ سسٹم صرف تدریس اور تعلیمی تحقیق پر توجہ دیتا ہے، مگر تحقیق کے حقیقی دنیا میں استعمال پر نہیں۔
بیرونِ ملک سے ٹیلنٹ کو پاکستان لانے کے لیے چین اور کوریا کی مثال پر عمل کیا جاسکتا ہے، اور انہیں وقت، معاوضے، مراعات، وسائل اور کام کرنے کے لیے مناسب و مددگار ماحول فراہم کیا جانا چاہیے۔
تنخواہوں کا ہمارا یکساں پے اسکیل بیرونِ ملک مقیم ٹیلنٹ کی پاکستان واپسی میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ یہ تنخواہیں تخلیقی ذہنیت کے بجائے اوسط درجے پر رہنے کو فروغ دیتی ہیں۔ یہاں تک کہ وہ لوگ جو واپس آنے کی ہمت کر بھی لیں تو ایک سخت معاندانہ ماحول ان کا منتظر ہوتا ہے جس میں یونیورسٹیوں کے اعلیٰ عہدوں پر براجمان عہدیدار ان کی زندگیاں اس قدر مشکل بنا دیتے ہیں کہ یا تو وہ لائن پر آجائیں یا پھر واپس چلے جائیں۔
بھرتی اور ترقی کے زمانہءِ قدیم کے قواعد سروس کے دورانیے، سینیارٹی اور ریسرچ پیپرز کی تعداد پر منحصر ہوتے ہیں، بجائے ریسرچ پیپرز کے معیار پر۔ یہ سب چیزیں مثالی کارکردگی دکھانے اور بین الاقوامی شناخت حاصل کرنے میں رکاوٹ ثابت ہوتی ہیں۔ یہ قواعد ملک واپس آنے کے خواہشمندوں کو واپس آنے سے روکتے ہیں۔
میں وائس چانسلروں کے انتخاب کی کئی سرچ کمیٹیوں کا رکن رہا ہوں، اور میرا تجربہ بتاتا ہے کہ ہم کس قدر تنگ نظر، کوتاہ بین اور خود پسند ہوچکے ہیں۔ باہر رہنے والوں کو تو چھوڑیں، اپنے ہی ملک کے دوسرے صوبوں سے تعلق رکھنے والے افراد، چاہے جتنے بھی اہل اور قابل کیوں نہ ہوں، انہیں سیاسی ترجیحات کی وجہ سے تعینات نہیں کیا جاتا۔ اگر ہم اعلیٰ ترین قائدانہ عہدوں پر افراد کی تعیناتی میرٹ پر کرسکیں تو ہمیں اس کا اثر پورے ادارے میں نظر آئے گا۔
حتمی بات یہ کہ ہمارے پاس سرکاری شعبے میں عمومی صلاحیت رکھنے والوں اور اسپیشلسٹس کے درمیان تنخواہوں کے فرق کے بارے میں فہم کی کمی پائی جاتی ہے۔ اسپیشلسٹ جو کہ ایک سخت گیر اور طویل تربیتی مرحلے سے گزرتے ہیں اور اپنے اپنے شعبوں کے ماہر ہوتے ہیں، انہیں عمومی صلاحیت رکھنے والوں سے زیادہ تنخواہ ملنی چاہیے۔
جانیے: پاکستانی یونیورسٹیز میں ریسرچ کی حالت زار
پے اینڈ پینشن کمیشن کے سربراہ کے طور پر میں کئی دفعہ اعلیٰ تعلیم یافتہ سائنسدانوں کو مکمل طور پر ہمت ہار چکا دیکھ کر حیران رہ جاتا تھا کیوں کہ کئی جنرل کیڈر افسران ان سے زیادہ ترقیاں، گریڈز اور تنخواہیں پا رہے تھے۔ عمومی احساس ہے کہ بیرونِ ملک سے تربیت یافتہ اور وہاں کام کرچکے ٹرانسپلانٹ سرجن کی تنخواہ چیف سیکریٹری سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔
ہمیں اب دنیا کے بارے میں اپنا نکتہ نظر تبدیل کرکے مستقبل کی جانب دیکھنا ہوگا اگر ہم دنیا کی 200 سے زائد اقوام سے مقابلہ کرنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ ہمیں اپنے ہنرمند نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کو سہولیات دینی چائیے تاکہ وہ ہمارے عوام کی خدمت کرسکیں۔
اگر ہماری عدالتیں ہماری اسپیشلسٹ افراد کی تنخواہیں متعین کرنے میں الجھ جائیں تو 18 لاکھ زیرِ التوا مقدمات کون نمٹائے گا؟
انگلش میں پڑھیں۔
یہ مضمون ڈان اخبار میں 11 جون 2018 کو شائع ہوا۔