یاد رکھیں! سمندروں کی بقاء میں ہی ہمارا تحفظ ہے
ہر روز ہم جو پانی پیتے ہیں اور سانس لینے کے لیے جو آکسیجن استعمال کرتے ہیں اس کا براہ راست تعلق سمندر سے ہے، ہم یہ اعتراف کریں یا نہ کریں مگر یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ انسانی زندگی کرۂ ارض کے طول وعرض پر پھیلے ہوئے 5 سمندروں کی مقروض ہے، مگر انسان طبعاََ بہت ہی نا شکرا ہے، نہ تو وہ آج تک میسر مواقع پر قناعت کرنا سیکھ سکا ہے اور نہ ہی شکر گزاری۔
کرۂ ارض اور اس کا قدرتی نظام اللہ تعالیٰ کا ہم پر خاص کرم تھا مگر ہم نے جہاں اپنی فضاؤں کو آلودہ کیا، وہیں سمندر بھی ہماری سرگرمیوں سے محفوظ نہیں رہے، ایک عالمی تحقیق کے مطابق ہر سال آبی آلودگی کا 80 فیصد حصہ خشکی اور ساحلوں سے سمندر میں شامل ہو رہا ہے اور تقریبا 80 لاکھ ٹن پلاسٹک سمندر کے پانی میں شامل ہو رہی ہے۔
دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی آبی آلودگی کے حوالے سے شعور اجاگر کرنے کے لیے 1992 سے کوششیں کی جارہی ہیں اور اس برس ریو ڈی جینیرو میں 'ارتھ سمٹ' کے دوران اس مسئلے کو عالمی ابلاغ ذرائع کے ذریعے بھرپور کوریج دے کر عالمی مبصرین اور سائنسدانوں کی توجہ اس جانب مبذول کروائی گئی۔
دنیا اور انسانی زندگی کے لیے سمندروں کی اہمیت کو نظر میں رکھتے ہوئے 2009 سے ہر سال 8 جون کو 'ورلڈ اوشین ڈے' منایا جاتا ہے، جس میں آبی الودگی سے متعلق مختلف اہم مسائل کو نمایاں کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، 2018 میں اس عالمی دن کو منانے کے لیے 'سمندری آلودگی اور پلاسٹک کی مصنوعات' کا تھیم رکھا گیا ہے۔
آج کے جدید دور میں پلاسٹک اور اس سے تیار کردہ مصنوعات ہماری روز مرہ زندگی کا ایک لازمی حصہ ہیں، شاپنگ بیگز سے لے کر گھر کے فرنیچر تک کسی نہ کسی صورت میں ہمارا روزانہ پلاسٹک کی مصنوعات سے واسطہ پڑتا رہتا ہے، اگرچہ یہ اشیاء دیگر دھاتوں یا لکڑی سے تیار کردہ اشیاء کی نسبت بہت ہی کم نرخ پر دستیاب ہیں، مگر در حقیقت ان کے منفی اثرات کی صورت میں ہم ہر روز ایک بڑی قیمت چکا رہے ہیں اور اگر اس کا استعمال اسی طرح جاری رہا تو مستقبل قریب میں مزید ہولناک صورتحال بعید از قیاس نہیں۔