فٹبال ورلڈکپ کی تاریخ، میدان میں کب کیا ہوا؟
رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑے ملک روس میں میرے حوالے سے بڑا مقابلہ شروع ہونے کو ہے، جس کے دوران دنیا بھر کے شائقین کی توجہ، نظروں اور تبصروں کا مرکز فیفا ورلڈ کپ کے نام سے مشہور یہ مقابلے ہی ہوں گے-
میری شروعات
زمانے کو ٹھوکروں پر رکھنا، نہ صرف اردو زبان کے ایک مشہور محاورے کی ایک شکل ہی نہیں بلکہ مختلف تہذیبوں میں اس مقام کو حاصل کرنے کی ترغیب بھی دی گئی ہے- زمانے کو ٹھوکروں پر رکھنا تو خیر کسی کسی کو نصیب ہوا، پر زمانے کی جگہ جب انسان کے پیروں میں گیند یا اس سے ملتی جلتی کوئی بھی چیز آئی، تو اس گیند کو اپنی ٹھوکروں سے ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانا، بہت دلچسپ اور طمانیت بخش لگنے لگا- پیروں کی ٹھوکر سے گیند یا گیند نما چیزوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پھینکنا، شاید زمانہ قدیم سے حضرت انسان کے پسندیدہ ترین مشغلوں میں شامل رہا ہے-
یہی وجہ ہے کہ مجھ سے ملتے جلتے کھیل قدیم مصری، یونانی اور رومن تہذیبوں میں کھیلے جانے کے اشارے ملے ہیں- اس حوالے سے یونان کے شہر ایتھنز کے ایک عجائب گھر میں موجود ایک برتن پر ایک یونانی لیجنڈ، میراڈونا کو مجھے یعنی فٹبال کو اپنی رانوں پر رکھے دکھایا گیا ہے-
اس کے علاوہ امریکا میں بھی مقامی آبادی ہزاروں سال پہلے مجھ سے ملتا جلتا کھیل کھیلا کرتی تھی-
فٹبال یا ساکر، جیسا کے آج کل مجھے پکارا جاتا ہے، ہمیشہ سے میرا نام نہیں- مجھ سے ملتے جلتے کھیل کا سب سے پہلا تذکرہ، چین میں ملتا ہے جس کے بارے میں تاریخ دان متفق ہیں-
اس کھیل کو 'تسو چو' کہا جاتا تھا اور ہان سلطنت کے عہد میں، تقریباً 300 قبل مسیح میں اس کھیل کو شاہی فوج کے سپاہی کھیلا کرتے تھے- اس کھیل میں میدان کے بیچ میں نصب 2 کھمبوں کے درمیان ایک جال باندھا جاتا تھا اور دونوں ٹیموں کے کھلاڑی مخالف سمتوں سے گیند کو اس جال سے گزارنے کی کوشش کرتے تھے-
اسی طرح، ایک ہزار قبل مسیح میں جاپان میں بھی مجھ سے ملتا جلتا ایک کھیل کھیلا جاتا تھا، جس میں 12 کھلاڑیوں پر مشتمل 2 ٹیمیں ایک دوسرے سے مقابلہ کرتی تھیں- اس کھیل کو کیماری کے نام سے جانا جاتا تھا- جس میں کھلاڑی ایک نسبتاً محدود جگہ پر کھڑے رہ کر پیروں کی مدد سے بنا زمین پر لگے بال کو ایک دوسرے کو پاس کرتے تھے- آج بھی یہ کھیل جاپان کے مخصوص علاقوں میں کھیلا جاتا ہے-
یونان میں مجھ سے ملتے جلتے کھیل کا نام اپسکیروس Episkyros تھا، جس میں ایک میدان کے دونوں جانب لکیروں کے علاوہ بیچ میں بھی ایک لکیر ہوتی تھی- دونوں ٹیموں کے کھلاڑیوں کی تعداد یکساں ہوتی تھی اور مخالف ٹیم کے سروں کے اوپر سے گیند کو ان کی جانب والی لکیر کے پیچھے پھینکنے کے بعد، حریف ٹیم کو لکیر کے پیچھے رکھنے کی کوسش کی جاتی تھی-
چند حوالے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ 50 قبل مسیح میں چین کے تسو چو اور جاپان کے کیماری کھلاڑیوں کے درمیان تاریخ کا پہلا فٹبال میچ (اگر آپ اسے فٹبال پکار سکیں) کھیلا گیا، تاہم ان دونوں ملکوں کے کھلاڑیوں کے درمیان 611 میں میچ ہونے کے ٹھوس شواہد موجود ہیں-
سنہ 600 - 1600 کے دوران میکسیکو اور وسطی امریکا میں ربڑ کی دریافت کے بعد، وہاں رہنے والوں نے مجھ سے ملتا جلتا کھیل کھیلنا شروع کر دیا، جس میں ایک لمبی سی جگہ پر دونوں جانب دیوار میں نسب پتھر یا لکڑی کے رنگ کے درمیان سے گیند کو گزرنا ہوتا تھا-
مختلف براعظموں اور ملکوں میں کھیلے جانے والے مجھ سے ملتے جلتے یہ کھیل کھیلے جاتے رہے اور یہ سب میرے ارتقاء کے حوالے سے اہمیت رکھتے ہیں- تاہم، آج جب میں دنیا کا سب سے مقبول ترین کھیل تسلیم کیا جاتا ہوں، تو اس حوالے سے سب سے اہم نام انگلینڈ کا ہے، جہاں میری آمد ایک مشہور زمانہ واقعے کے بعد ہوئی، جس میں ڈنمارک کے ایک شہزادے کا سر قلم کرنے کے بعد، فوج نے اسے اپنی ٹھوکروں سے ایک دوسرے کی جانب اچھالا تھا-
بس جناب پھر تو کیا کہنے، انگلینڈ کے باسیوں کو تو ایک نیا کھیل مل گیا- اس مقصد کے لیے، ابتدا میں جانوروں کے پتے کو گیند کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا اور اس بات کے تاریخی شواہد موجود ہیں کہ 8ویں صدی کے دوران مشرقی انگلینڈ کی مقامی آبادی کے درمیان پہلا میچ کھیلا گیا-
یہ کھیل سپاہیوں میں اتنا مقبول ہوا کہ انہوں نے تیر اندازی کی مشقیں چھوڑ کر اس کھیل کو کھیلنا اور اس کے میچ دیکھنا شروع کر دیے-
اس وقت تک کھیل کو کھیلنے کے دوران بہت شور و غل بھی ہونے لگا اور اس کی شکایتیں جب شاہی دربار تک پہنچیں، تو ان شکایتوں اور اس بناء پر کہ سپاہی اس کھیل کی وجہ سے تیراندازی کی مشقوں میں حصہ لینے سے کترانے لگے تھے، اس کھیل پر بادشاہ کی جانب سے 14ویں صدی میں پہلی بار پابندی عائد کر دی گئی اور اسے کھیل کو کھیلنا قابل سزا جرم ٹھہرا- یہ پابندی کئی صدیوں تک اور مختلف بادشاہوں اور ملکاؤں کے عہد میں برقرار رہی-
تاہم، اس پابندی اور کھیل میں وحشی پن و تشدد کے بے شمار واقعات کے باوجود اس کی مقبولیت ختم نہ ہوئی، یہاں تک کہ سنہ 1605 میں دوبارہ قانونی طور پر اس کھیل کو کھیلنے کی اجازت دے دی گئی-
اسی عرصے میں کینیڈا اور الاسکا میں بسنے والے اسکیموز نے بھی گھاس پھوس اور اسی قسم کی دوسری چیزوں سے گیند کو بھر کر برف پر اقساقٹک (AQSAQTUK) نامی کھیل کھیلنا شروع کیا- اس کھیل میں 2 گولوں کے درمیان فاصلہ بعض اوقات میلوں کا ہوتا تھا اور پورے کے پورے گاؤں ایک دوسرے کے خلاف ہونے والے مقابلے میں حصہ لیا کرتے تھے-
قواعد اور قوانین
میرے حوالے سے قواعد و ضوابط بنانے کا سب سے پہلا سہرا، ایلٹن کالج انگلینڈ کو جاتا ہے، جہاں 1815 میں پہلی بار مجھے کھیلنے کے لیے رولز قوانین بنائے گئے- امریکا میں شمال مشرقی یونیورسٹیوں اور ہارورڈ، پرنسٹن، امہرسٹ اور براؤن کالجوں کے درمیان 1820 میں فٹبال مقابلے ہونا شروع ہو گئے تھے-
انگلینڈ کی کیمبرج یونیورسٹی میں مجھے کھیلنے کے قوانین پر 1848 میں نظر ثانی کی گئی اور انہیں کیمبرج رولز کے نام سے جانا جاتا ہے- انگلینڈ کے تمام اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں نے ان نظر ثانی شدہ قواعد و ضوابط کے مطابق اس کھیل کو کھیلنے پر اتفاق کیا-
تعلیمی اداروں میں اس کھیل کو رائج کرنے کے حوالے سے ایک کردار کا ذکر نہ کرنا زیادتی ہو گا اور یہ یہ کردار یا شخصیت تھے رچرڈ ملکاسٹر، جو کہ 17ویں صدی کے دوران لندن کے 2 مشہور اسکولوں، مرچنٹ ٹیلرز اور سینٹ پال کے سربراہ تھے- وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے اس کھیل کو کھیلنا، طالب علموں کے اندر اسپورٹس مین اسپرٹ جگانے، ان کی صحت بہتر بنانے، ٹیم ورک کا جذبہ پیدا کرنے اور دیگر حوالوں سے مفید جانا اور اس کو باقاعدہ غیر نصابی سرگرمیوں کا حصہ بنا دیا-
شاید یہی وجہ ہے کہ آج بھی انگلینڈ کے اسکولوں اور تعلیمی اداروں میں فٹبال کو غیر نصابی سرگرمیوں میں ایک ممتاز مقام حاصل ہے-
یہاں اس بات کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ عام خیالات کے برعکس 19ویں صدی تک میں یعنی فٹبال، صرف امراء میں مقبول تھا- اور اسی وجہ سے مجھے کھیلنے کے قوانین کے حوالے سے ہمیشہ بڑے تعلیمی اداروں کے نام سامنے آتے ہیں- انگلینڈ کی ورکنگ کلاس میں اس کھیل کی مقبولیت 19ویں صدی کے اواخر میں بڑھی اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ نہ صرف انگلینڈ بلکہ دنیا بھر میں اس مقبولیت میں اضافہ ہی ہوتا گیا-
عروج کا سفر
19ویں صدی میں میری بڑھتی مقبولیت کے دور میں مجھے کھیلنے کے طریقوں اور ضابطوں کے حوالے سے مختلف اسکولوں اور کالجوں کے درمیان اختلاف سامنے آنا شروع ہو گئے- یاد رہے کہ اس زمانے میں زیادہ تر تعلیمی ادارے کھیلنے کے لیے دستیاب میدانوں کی مناسبت سے مجھے کھیلنے کے لیے قوانین بناتے تھے۔
مثال کے طور پر چارٹر ہاؤس، ویسٹ منسٹر، ایٹن اور ہارو جیسے اسکول مجھے کھیلنے کے لیے ایسے رولز پر عمل کرتے تھے جن میں جسمانی طاقت اور ہاتھوں کے استعمال کے بجائے، پیروں سے ڈربلنگ کرنے اور گیند کو کک مار کر آگے پہنچانے کی حوصلہ افزائی ہوتی تھی- دیکھا جائے تو ایسے ہی رولز آگے چل کر آج میرے نام سے وابستہ کھیل، فٹبال یا سوکر کے قوانین سے منسوب ہوئے۔
دوسری جانب، چیلٹنھم اور رگبی ایسے اسکول تھے جنھیں میری وہ طرز زیادہ پسند تھا جس میں طاقت کا استعمال، باڈی ٹیکل، گیند کو ہاتھ میں اٹھانا اور اسے لے کر بھاگنا بھی شامل تھا- یہ طرز آگے چل کر رگبی کے نام سے مشہور ہوئی۔
اسکولوں اور دیگر تعلیمی اداروں نے مجھے ان دو طریقوں سے کھیلنا جاری رکھا اور ایلٹن رولز اور کیمبرج رولز کی طرح میری ایک قسم یا فارم رگبی کے لئے 1846 میں رگبی اسکول کی جانب سے رگبی رولز، اس مشہور واقعے کے بعد بنائے گئے جس میں ولیم ویب ایلس نامی کھلاڑی نے پہلی بار تماشائیوں اور حریف کھلاڑیوں کو حیران کرتے ہوئے گیند کو ہاتھوں سے اٹھایا اور بغل میں دبا کر دوڑنا شروع کر دیا- اس واقعے اور ان کے اس انداز کو موجودہ دور میں رگبی کے نام سے جانے جانے والے کھیل کے آغاز سے موسوم کیا جاتا ہے۔
انگلینڈ کے مختلف شہروں میں ورکنگ کلاس میں بھی یہ کھیل مقبول ہونا شروع ہو چکا تھا اور اٹھارویں صدی کے دوران اس کے مختلف کلبز بھی بننا شروع ہو چکے تھے- اب بھی کھیل کے دوران گیند کو ہاتھ لگانا منع نہیں تھا اور نہ ہی ایک دوسرے کو لاتیں مارنا- مختلف کلبز اور تعلیمی ادارے اپنی ترجیحات کے حساب سے اور اپنے پسندیدہ ضابطے اور قواعد کی مناسبت سے مجھے کھیلا کرتے تھے۔
اور پھر مجھے کھیلنے والے گیارہ ممتاز اسکولوں، کالجوں اور کلبوں کے نمائندوں کا ایک اجلاس 26 اکتوبر، 1863 میں فری میسنز ٹیورن میں منعقد ہوا تا کہ مجھے کھیلنے کے لئے ایک متفقہ ضابطہ بنایا جا سکے- یہ بات شاید حیران کن ہو کہ اس اجلاس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا اور کسی متفقہ فیصلے پر پہنچنے کے لئے اگلے تین ماہ کے دوران کل آٹھ اجلاس ہوئے۔
اسی دوران رگبی رولز کے حامیوں نے اس اجلاس سے واک آؤٹ کر دیا اور بالآخر دسمبر، 1863 کو ایسوسی ایشن فٹبال کا قیام عمل میں آیا اور اسی روز پہلی بار مجھے کھیلنے کے لئے جامع قواعد و ضابطے شائع کیے گئے۔
ان قوانین کو بنانے کے فوری بعد ان کے مطابق، پہلا فٹبال میچ 19 دسمبر، 1863 کو لندن میں بارنز فٹبال کلب اور رچمنڈ فٹبال کلب کے درمیان کھیلا گیا جس میں اس وقت کے چوٹی کے کھلاڑیوں نے حصہ لیا تاہم یہ میچ بنا کسی گول کے برابری پر ختم ہوا۔
اس تنظیم اور مجھے کھیلنے کے لئے متفقہ قانون کی تشکیل کے کے بعد میری ترقی کا سفر تو جیسے بجلی کی تیزی سے طے ہونا شروع ہو گیا- اس وقت تک برطانوی سیلرز، تاجروں اور سپاہیوں کی وجہ سے میری پہنچ بہت سے ملکوں تک ہو چکی تھی اور خاص طور پر بہت سے یورپی ملکوں میں تو ایف اے طرز کی تنظیمیں اور مجھے کھیلنے والے کلبز تیزی سے سامنے آنا شروع ہو گئے تھے۔
مجھے کھیلنے کے لئے بنائے جانے والے 1863 کے رولز کے بارے میں بھی آپ سے چند دلچسپ حقائق شئیر کرتا چلوں- سب سے اہم یہ کہ ان رولز کے مطابق، ہینڈلنگ یعنی گیند کو ہاتھ لگانے یا اسے پکڑنے کی اجازت تھی تاہم یہ اسی صورت میں ممکن تھا کہ کھلاڑی اچھلی ہوئی گیند کو کیچ کر لے اور پھر اسے اس کے بدلے فری کک مل جاتی تھی- 1869 میں قوانین میں ترمیم کے ساتھ ہی ہینڈلنگ کو کھیل میں ممنوع قرار دے دیا گیا۔
ان رولز میں دو گول پوسٹوں کے اوپر بار لگانے کا بھی کوئی ذکر موجود نہیں- اسی طرح شاید کم لوگوں کے علم میں یہ بات ہو کہ ان قوانین میں ریفری کا بھی کوئی ذکر نہیں- اس حوالے سے یہ دلیل سامنے آتی ہے کہ شرفاء سے کسی فاؤل کی توقع نہیں کی جا سکتی تھی لہٰذا شریف لوگ (جنٹلمین) اسے بناء کسی جج یا ریفری کے کھیلتے تھے- دو ٹیموں کے درمیان میچ میں ریفری کی موجودگی کی شروعات 1891 سے ہوئی۔
قوانین بنانے کے چند سال بعد، 1872 میرے حوالے سے دنیا کے سب سے پہلے ٹورنامنٹ یعنی ایف اے کپ کا آغاز ہوا جبکہ اس وقت تک انگلینڈ میں ایف اے سے جڑے کلبز کی تعداد 50 تک پہنچ چکی تھی اور پھر 1888 میں باقاعدہ لیگ چیمپئن شپ کا آغاز ہوا۔
مجھے کھیلنے کے دوران استعمال ہونے والی زیادہ تر اصطلاحات فوج سے لی گئیں، اسی وجہ سے گول کرنے والے کو اٹیکر اور اسے بچانے والے کو ڈیفندر کھلاڑی کہا جاتا ہے- اسی طرح بیک لائن، ونگر اور اٹیک کی اصطلاحات ہیں۔
ایک اور دلچسپ امر یہ ہے کہ پہلے پہل کارنر مارتے وقت یہ بات ضروری نہیں تھی کہ کھلاڑی کونے سے گیند کو کک مارے بلکہ بہت سے ایسے واقعات بھی ہوئے جن میں کھلاڑیوں نے کارنر اسپاٹ سے گیند کو دربل (DRIBBLE) کرتے ہوئے گول کے قریب پہنچ کر ایسی جگہ سے گیند پر کک لگائی کہ گول کرنا ممکن ہو- 1913 میں قواعد میں ہونے والی تبدیلی کے بعد یہ سلسلہ ختم ہوا۔
ایک اور دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ 1927 سے پہلے تک فری کک کے ذریعے گول کرنا ممکن نہیں تھا کیونکہ اس وقت کے قانون کے مطابق فری کک سے ماری گئی گیند اگر گول میں چلی بھی جاتی تھی تو اسے گول تسلیم نہیں کیا جاتا تھا۔
میری مقبولیت اور میرے میچوں میں تماشائیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو دیکھتے ہوئے کلبز نے پروفیشنل کھلاڑیوں کو معاوضے کے عوض اپنے کلبز سے کھلانا شروع کر دیا- اس سلسلے کا آغاز اس وقت ہوا جب ایک نسبتاً چھوٹے سے کلب ڈارون نے اس زمانے کی ناقابل تسخیر ٹیم، اولڈ ایٹونینز کو مسلسل دو میچوں تک جیت سے دور رکھا- کہا جاتا ہے کہ ڈارون کلب نے اس مقصد کے لئے دو کھلاڑیوں کو اپنی ٹیم میں کھلایا تھا جن کی مہارت اور تیزی کی وجہ سے ان دونوں میچوں میں حریف ٹیم مقابلہ جیتنے میں ناکام رہی۔
ڈارون کلبز کے ان دو کھلاڑیوں کے نام تھے اسکوٹس جان لوو اور فرگس سوٹر اور یہی دونوں دنیا کے پہلے پروفیشنل فٹبالر کہلاتے ہیں- ان کے بعد کلبز میں پیشہ ورانہ کھلاڑیوں کو کھلانے کے رجحان میں اس حد تک اضافہ ہوا کہ ایف اے کو 1885 ہی میں پروفیشنلزم کو قانونی قرار دینا پڑا۔
میری مقبولیت دنیا میں ہر جانب پھیل رہی تھی اور مختلف ملکوں کی فٹبال تنظیموں کے لئے ایک بار پھر وہی مسئلہ سامنے آنے لگا کہ بین الاقوامی میچوں کو کن قواعد و ضوابط کے تحت کھیلا جائے- اس مسئلے کے حل کے لئے مئی 1904 میں 7 ملکوں کے نمائندے فرانس کے شہر پیرس میں جمع ہوئے اور فیڈریشن انٹرنیشنل دی فٹبال ایسوسی ایشن یعنی فیفا کا قیام ہوا۔
اس ابتدائی اجلاس میں شامل ہونے والے ملکوں میں فرانس، بیلجیئم، ڈنمارک، نیدرلینڈ، سوئٹزرلینڈ، اسپین اور سوئیڈن شامل تھے- حیرانی کی بات ہے کہ اس تاریخی اجلاس میں انگلینڈ نے شرکت نہیں کی تھی۔
فیفا کی مسلسل کوششوں کی وجہ سے بالآخر 1930 میں میرے نام پر تاریخ کا پہلا عالمی ٹورنامنٹ کھیلا گیا اور آج اس ٹورنامنٹ کے 21ویں ایڈیشن کا آغاز ہونے جا رہا ہے جسے ایک بار پھر دنیا بھر میں ریکارڈ تعداد میں شائقین برازیل کے اسٹیڈیمز میں اور ناظرین اپنی ٹیلی ویژن اسکرینز پر اگلے چند ہفتوں تک دیکھتے رہیں گے۔
شعیب بن جمیل کی یہ تحریر 2014 میں دو اقساط (قسط اول ، قسط دوم) میں شائع ہوئی تھی، جس کو معمولی ترمیم کے بعد دوبارہ شائع کیا گیا۔
تحریر و ترتیب : عبداللہ وحید راجپوت
فٹبال دنیا کا مقبول ترین کھیل ہے جسے دنیا کے تقریباً تمام ممالک ہی بین الاقوامی سطح پر کھیلتے ہیں۔ اس کھیل کے عالمی میلے کا انعقاد ہر 4 برس بعد کیا جاتا ہے، جس میں دنیا کی 6 کنفیڈریشنز کی ٹیمیں حصہ لیتی ہیں۔
ٹورنامنٹ میں حصہ لینے کے لیے تمام کنفیڈریشنز میں کولیفائینگ کپ منعقد کیے جاتے ہیں، جن میں فاتح اور رنرز اپ رہنے والی ٹیمیں فیفا ورلڈ کپ کے لیے کولیفائی کرلیتی ہیں۔ اس صورت میں جب فیفا نے ایک کنفیڈریشن سے 2 سے زائد ٹیموں کو ورلڈ کپ میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا ہو، تو پھر کولیفائینگ کپ میں مطلوبہ تعداد کی سرفہرست ٹیمیں ورلڈ کپ کے لیے کولیفائی کرتی ہیں۔ یعنی اگر ایشیا سے 4 ٹیموں کو فیفا ورلڈ کپ میں شامل ہونے کی اجازت دی گئی ہے تو پھر کنفیڈریشن کے کولیفائینگ ٹورنامنٹ میں فاتح، رنرز اپ، تیسرے اور چوتھے نمبر پر آنے والی ٹیمیں ورلڈ کپ کے لیے کولیفائی کریں گی، جبکہ 5 اور اس سے نیچے درجے کی ٹیمیں ناکام کہلائیں گی۔
فٹبال ورلڈ کپ کے انعقاد کا تصور فیفا کے صدر جولز ریمٹ نے پیش کیا تھا۔ فیفا ورلڈ کپ کی شروعات 1930 میں ہوتی ہے اور اس کی میزبانی کے لیے یوراگوئے کو چنا جاتا ہے، جو اپنی آزادی کی 100 سالہ تقریبات منا رہا تھا، اور اسی نے ایونٹ کے لیے ٹیموں کو دعوت دی اور ان کے اخرابات بھی برداشت کیے۔ اس ٹورنامنٹ کے لیے کولیفائینگ راؤںڈ نہیں کھیلا گیا، بلکہ ٹیموں نے یوراگوئے کی دعوت پر ایونٹ میں شرکت کی۔
اب تک 20 ورلڈ کپ 15 ممالک میں منعقد کیے جاچکے ہیں جن میں میکسیکو، فرانس، جرمنی، برازیل اور اٹلی ان ممالک میں شامل ہیں جنہوں نے 2 مرتبہ ایونٹ کی میزبانی کے فرائض انجام دیے ہیں۔
برازیل کی ٹیم فیفا کے تمام ورلڈ کپ کھیلنے والی واحد ٹیم ہے، اور سب سے زیادہ مرتبہ ورلڈ کپ جیتنے کا ریکارڈ بھی برازیل کے ہی پاس ہے۔ جبکہ ورلڈ کپ کے سب سے زیادہ فائنل کھیلنے کا ریکارڈ جرمنی کے پاس ہے۔
یوراگوئے، اٹلی، ارجنٹینا، انگلیںڈ اور فرانس ان ممالک میں شامل ہیں جنہوں نے اپنے ہی ملک میں ہونے والا ورلڈ کپ جیتا جبکہ سوئیڈن وہ واحد ٹیم ہے جو اپنے ملک میں ہونے والے ورلڈ کپ کے فائنل میں شکست کھا گئی تھی۔ جرمنی اور اسپین بھی ورلڈ کپ جیتنے والی ٹیموں میں شامل ہیں۔
بدلتے وقت کے ساتھ ساتھ فٹبال کے کھیل میں تبدیلیاں رونما ہوتی گئیں اور ان تبدیلیوں کو عالمی مقابلوں میں بھی نافذ کیا جاتا رہا۔ گزرتے وقت کے ساتھ فٹبال ورلڈ کپ میں ٹیموں کی تعداد اور ان کے فارمیٹ میں بھی تبدیلیاں رونما ہوتی گئیں۔
فٹبال کے عالمی مقابلوں کا جائزہ لینے کے لیے ان کے نام سے متعین ٹیب پر کلک کریں۔
دنیا میں سب سے زیادہ کھیلے جانے والے اور مقبول ترین کھیل فٹبال کی عالمی تنظیم جس کا نام (فرانسیسی زبان میں) فیڈریشن انٹرنیشنلے ڈی فٹبال ایسوسی ایشن (فیفا) ہے، کا قیام سال 1900 میں ہونے والے اولپکس میں فٹبال کی شمولیت کے بعد 1904 میں عمل میں آیا۔ جس کے بعد سے 1928 تک ہر چار سال ہونے والے اولمپکس میں طلائی تمغے کے لیے فٹبال کے مقابلے منعقد کیے جاتے تھے جن کے کامیاب انعقاد کے بعد فٹبال کی عالمی تنظیم نے اولمپک کے باہر فٹبال کے عالمی مقابلے کے انعقاد کا فیصلہ کیا جسے فیفا ورلڈ کپ کا نام دیا گیا۔
فیفا ورلڈ کپ کی میزبانی کے مختلف ممالک کے نام سامنے آئے تاہم یواگوئے 1930 میں برازیل سلطنت سے حاصل کی جانے والی آزادی کی 100 سالہ تقریبات منعقد کرنے جارہا تھا، اس کے لیے یوراگوئے حکومت نے فیفا سے ورلڈ کپ میزبانی کی درخواست کی جسے قبول کر لیا گیا جبکہ میزبانی کے امیدوار دیگر ممالک اس سے دستبرار ہوگئے۔