دنیا

اردن: شاہ عبداللہ نے نیا وزیر اعظم نامزد کردیا

عمررزاز وزیر تعلیم اورعالمی بینک کے کنٹری منیجر بھی رہ چکے ہیں،مظاہرین کاٹیکس بل کی واپسی تک احتجاج جاری رکھنے کا اعلان

اردن کے شاہ عبداللہ دوم نے گزشتہ روز ملک میں جاری حکومت مخالف احتجاج کے پیش نظر سابق وزیراعظم کے استعفے کو قبول کرنے کے بعد آج نئے وزیر اعظم کو نامزد کردیا۔

اردن کی کابینہ کے رکن، ہارورڈ یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ اور ورلڈ بینک کے سابق سینیئر حکام عمر رزاز کو ہانی الملکی کی جگہ نامزد کیا گیا ہے۔

عمر رزاز — فوٹو: اے پی

عمر رزاز نے میساچوسٹس اسنٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سے 2002 سے 2006 کے دوران تعلیم حاصل کی جس کے بعد وہ 2006 سے 2010 تک لبنان میں ورلڈ بینک کے کنٹری منیجر کے عہدے پر فائز رہے۔

بعد ازاں عمر رزاز 2011 سے 2012 تک اردن واپس آکر سوشل سیکیورٹی کارپوریشن کے سربراہ بھی رہے۔

مزید پڑھیں: اردن کے وزیراعظم مہنگائی کے خلاف عوامی احتجاج پر مستعفی

یہ بات ابھی واضح نہیں ہے کہ عمر رزاز کو کتنا اصلاحاتی مینڈیٹ دیا جائے گا کیونکہ پالیسی کے امور پر حتمی فیصلے کا اختیار صرف شاہ عبداللہ کے پاس ہے اور وہ سیاسی حکومت سے بالا طاقت کے حامل ہیں۔

عمر رزاز کی نامزدگی کے لیٹر میں واضح طور پر ٹیکس نظام پر نظر ثانی کرنے اور نئے ٹیکس بل کو پارلیمنٹ، یونین اور دیگر گروہوں کے ساتھ مل کر پیش کرنے کا کہا گیا ہے۔

احتجاج جاری

انکم ٹیکس بل کے خلاف احتجاج کرنے والے مظاہرین کا کہنا تھا کہ وہ مطالبات پورے کیے جانے تک حکومت پر دبائو برقرار رکھیں گے اور اس حوالے سے انہوں نے کل (بدھ کو) ایک روزہ ہڑتال کا اعلان بھی کر رکھا ہے۔

ناقدین کا کہنا تھا کہ ٹیکس میں اضافے سے صرف غریب اور مڈل کلاس طبقے کو نقصان پہنچایا جارہا ہے۔

یاد رہے کہ گزشتہ ماہ اردن حکومت کی جانب سے انکم ٹیکس قانون پر مسودہ تیار کیا گیا تھا جو ابھی تک پارلیمان سے منظور نہیں ہوا، تاہم اس قانون کا مقصد ملازمین پر 5 فیصد جبکہ کمپنیز پر 20 سے 40 فیصد کے درمیان ٹیکس بڑھانا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: اردن: حکومت مخالف مظاہرے،وزیر اعظم کے استعفے کا مطالبہ

حکومت کی جانب سے مسلسل اقتصادی اصلاحات میں یہ حالیہ اقدام ہے کیونکہ 2016 میں عمان نے 3 سال کی کریڈٹ لائن پر بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف ) سے 72 کروڑ 30 لاکھ ڈالر وصول کیے تھے۔

اس کے بعد جنوری سے اردن میں بڑے پیمانے پر بےروزگاری میں اضافہ ہوا تھا اور روز مرہ کی اشیا جیسے ڈبل روٹی کی قیمتوں میں اضافہ ہوا تھا اور بنیادی اشیا پر اضافی ٹیکسز لگائے گئے تھے۔

اسی طرح سال کے آغاز سے 5 مرتبہ ایندھن کی قیمتیں بڑھائی گئی تھیں جبکہ بجلی کے بلوں میں بھی 55 فیصد اضافہ ہوا تھا۔

آئی ایم ایف کی جانب سے دی گئی رقوم کے بعد اردن حکومت کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات کے باعث ہونے والا احتجاج 5 برسوں میں سب سے بڑا معاشی احتجاج ہے۔