پاکستان

ریلی میں شامل افراد نے عسکری قیادت اور عدلیہ مخالف تقاریر کیں، گواہ

ملزمان میں ایم این اے شیخ وسیم، ایم پی اے نعیم صفدر، جمیل خان، ناصر خان، احمد لطیف اور حاجی ایاز شامل ہیں۔
|

قصور میں عدلیہ مخالف ریلی اور نعرے بازی کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں دائر کیس میں گواہ نے بیان قلمبند کرواتے ہوئے بتایا کہ ریلی میں شامل افراد نے عسکری قیادت اور عدلیہ مخالف تقاریر کیں۔

لاہور ہائی کورٹ میں عدلیہ مخالف ریلی اور نعرے بازی کے خلاف کیس کی سماعت ہوئی، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔

اس موقع پر عدالت نے ملزم ناصر خان اور جمیل کی معافی سے متعلق سپریم کورٹ کا حکم نامہ طلب کیا۔

کیس کی سماعت کے دوران عبدالرحمٰن نامی شہری گواہ نے عدالت میں پیش ہو کر اپنا بیان قلمبند کروایا، جس کے بعد فریقین کے وکلا نے عبدالرحمٰن کے بیان پر جرح مکمل کی۔

مزیر پڑھیں: توہین عدالت کیس: احسن اقبال کو تحریری جواب جمع کرانے کا حکم

کیس میں پیش کیے گئے گواہ کے مطابق ریلی میں شامل افراد نے عسکری قیادت اور عدلیہ مخالف تقاریر کیں۔

یاد رہے کہ ملزمان میں ایم این اے شیخ وسیم، ایم پی اے نعیم صفدر، جمیل خان، ناصر خان، احمد لطیف اور حاجی ایاز شامل ہیں۔

بعد ازاں عدالت نے سماعت 5 جون تک کے لیے ملتوی کر دی۔

30 مئی 2018 کو لاہور ہائی کورٹ نے توہین عدالت کیس میں وفاقی وزیر داخلہ اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما احسن اقبال کو آئندہ سماعت پر تحریری جواب جمع کرانے کی ہدایت کی تھی۔

یاد رہے کہ 2 مئی 2018 کو لاہور ہائی کورٹ نے عدلیہ مخالف تقاریر پر پابندی سے متعلق کیس میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور وزیر داخلہ احسن اقبال کو ذاتی حیثیت میں طلب کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: عدلیہ مخالف احتجاج: مسلم لیگ (ن) کے 45 کارکنوں کی ضمانت منظور

واضح رہے کہ 17 اپریل کو لاہور ہائی کورٹ نے عدلیہ مخالف تقاریر کیس میں کسی کا نام لیے بغیر 1973 کے آئین کے آرٹیکل 19 اور 68 کے تحت عدلیہ مخالف تقاریر پر پابندی عائد کی تھی۔

بعد ازاں اس فیصلے پر سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لیا تھا اور لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے عدالت نے حکم جاری کیا تھا کہ یہ فیصلہ بنیادی حقوق سے متصادم نہیں ہے۔

قصور میں عدلیہ مخالف تقریر

واضح رہے کہ 13 اپریل کو رکن قومی اسمبلی وسیم اختر کی کال پر مسلم لیگ (ن) کے متعدد ورکرز شہباز خان روڈ کے قریب ان کی رہائش گاہ کے باہر جمع ہوئے اور ریلی کی صورت میں کشمیر چوک پہنچے جہاں مظاہرین نے 2 گھنٹے روڈ بلاک رکھی اور ٹائر جلائے۔

ایم این اے وسیم اختر اور ایم پی اے نعیم صفدر مظاہرین کی سربراہی کررہے تھے۔

بعد ازاں پولیس نے عبدالرشید اور میجر (ر) حبیب الرحمٰن کی شکایات پر 2 ایف آئی آر درج کیں، جن کے بارے میں کہا جارہے کہ وہ سماجی کارکن بھی ہیں۔

ایف آئی آر کے مطابق 18 اپریل کو ایم این اے وسیم اختر، ایم پی اے نعیم صفدر، میونسپل کمیٹی چیئرمین ایاز خان، مارکیٹ کمیٹی چیئرمین جمیل خان اور سوشل سیکیورٹی ہیڈ نصر خان نے کمشیر چوک کے پاس فیروز پورہ روڈ بلاک کیا۔

مذکورہ اشخاص نے ججز اور خفیہ اداروں کے خلاف غیر اخلاقی زبان استعمال کی، شکایت کنندگان نے دعویٰ کیا کہ ان کے پاس مشتبہ افراد کی ویڈیو ریکارڈنگ بھی موجود ہے۔

مزید پڑھیں: قصور: عدلیہ مخالف احتجاج پر مسلم لیگ (ن) کے 45 کارکن گرفتار

اس حوالے سے بتایا گیا کہ مقدمات درج ہونے کے بعد مذکورہ اشخاص کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی اور پولیس ویڈیو اور تصاویر کی مدد سے مشتبہ افراد کی گرفتار عمل میں لا رہی ہے۔

مقدمے کے اندراج کے بعد پولیس نے رکن قومی اسمبلی وسیم اختر، رکن صوبائی اسمبلی نعیم صفدر، قصور میونسپل کمیٹی چیئرمین ایاز خان، وائس چیئرمین احمد لطیف، یونین کونسل چیئرمین ناصر خان اور جمیل خان سمیت 45 مشتبہ لوگوں کو گرفتار کرلیا تھا۔

20 اپریل 2018 کو سابق وزیراعظم نواز شریف کو نااہل قرار دینے کے عدالتی فیصلے کے خلاف مبینہ طور پر احتجاج کرنے والے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے زیر حراست 45 کارکنان کی فی کس ایک لاکھ روپے مچلکے کے عوض ضمانت منظور کرلی تھی۔

واضح رہے کہ پولیس کے مطابق ایف آئی آر میں مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں میں مقامی رکن قومی و صوبائی اسمبلی سمیت 80 افراد کے نام شامل تھے۔