56 کمپنیوں میں مبینہ کرپشن: شہباز شریف سپریم کورٹ میں پیش
لاہور: سابق وزیراعلیٰ پنجاب اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے 56 کمپنیوں میں مبینہ کرپشن کے کیس کے سلسلے میں سپریم کورٹ میں پیش ہوکر اپنا بیان ریکارڈ کرایا جسے عدالت نے مسترد کردیا۔
سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل دو رکن بینچ نے 56 کمپنیوں میں مبینہ کرپشن کے حوالے سے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔
سماعت کے آغاز میں چیف جسٹس نے بھاری تنخواہوں پر بھرتیاں کرنے پر وضاحت کے لیے شہباز شریف کو طلب کرتے ہوئے کہا کہ سابق وزیراعلیٰ پنجاب خود عدالت میں وضاحت کریں کہ سرکاری افسران کو بھاری تنخواہوں پر کیسے بھرتی کیا گیا۔
اس موقع پر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب عاصمہ حامد کا کہنا تھا کہ شباز شریف کا کردار کمپنیوں سے براہِ راست نہیں تھا، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ان کے کردار کے بغیر تو یہاں مکھی بھی نہیں اڑتی۔
مزید پڑھیں: ’خلائی مخلوق‘ سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں، شہباز شریف
بعد ازاں سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں پیش ہوئے، اور اپنا بیان ریکارڈ کرایا، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ وہ شہباز شریف کے جواب سے مطمئن نہیں ہیں اور ان کے بیان کو مسترد کرتے ہیں۔
چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ جن لوگوں کو لاکھوں روپے کی مراعات دی گئی ہیں ان سے ایک ایک پائی وصول کی جائے گی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ مذکورہ رقم کی واپسی کی ذمہ داری بھی شہباز شریف پر ہوگی اگر یہ رقم واپس نہیں آئی تو شہباز شریف کو نوٹس جاری کیا جائے گا۔
شہباز شریف کی عدالت میں پیشی سے قبل انسپکٹر جنرل (آئی جی) پنجاب پولیس اور چیف سیکریٹری پنجاب سمیت دیگر افسران عدالت پہنچے۔
یہ بھی پڑھیں: شہباز شریف کو بچپنے اور سنجیدہ عمل میں فرق کا احساس ہی نہیں، چوہدری نثار
علاوہ ازیں عدالتِ عظمیٰ نے قومی احتساب بیورو (نیب) کو 6 کمپنیوں کے چیف ایگزیکٹو افسران (سی ای اوز) کی جائیداد کا تخمینہ لگانے کا بھی حکم دیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پتا لگایا جائے کہ مذکورہ افراد کتنی جائیداد کے مالک ہیں، تاکہ قوم کی دولت واپس ان کو لوٹائی جاسکے۔
عدالت عظمیٰ نے کڈنی اینڈ لیورٹرانسپلانٹ انسٹیٹیوٹ کے 20 ارب روپے کے اخراجات کا فارنزک آڈٹ کرانے کا بھی حکم دیا۔
سماعت کے دوران اربن پلاننگ و منیجمنٹ کمپنی کے سربراہ نے خودکشی کی دھمکی دی جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ان کی اس دھمکی کی وجہ سے عدالت اپنا فیصلہ تبدیل نہیں کرے گی۔