سعودی عرب کی قطر کے خلاف فوجی کارروائی کی دھمکی
سعودی عرب کے فرماں روا سلمان بن عبدالعزیز نے خبردار کیا ہے کہ اگر قطر نے روس سے فضائی دفاعی نظام خریدا تو سعودی عرب اس کے خلاف فوجی کارروائی کرسکتا ہے۔
فرانسیسی اخبار لی موندے کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب کے فرماں رواں شاہ سلمان نے فرانسیسی صدر ایمانویل میکرون کے نام ایک خط ارسال کیا جس میں انہوں نے روس اور قطر کے مابین جدید ترین دفاعی نظام کے حصول کے لیے جاری مذاکرات پر شدید تحفظات کا اظہار کیا۔
فرانسیسی صدر کے نام لکھے گئے خط میں شاہ سلمان نے فرانس سے قطر پر دباؤ ڈالنے کا مطالبہ کیا، ان کا مزید کہنا تھا کہ انہیں قطر کی جانب سے زمین سے فضا میں مار کرنے والے ایس-400 میزائل دفاعی نظام کے حصول کی کوششوں پر سخت تشویش ہے جو خطے میں سعودی عرب کے لیے خطرے کا باعث بن سکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: قطر تنازع: سعودی عرب کا مطالبات سے پیچھے ہٹنے سے انکار
خط میں کہا گیا ہے کہ سعودی عرب اس دفاعی نظام کے حصول کو روکنے کے لیے کوئی بھی قدم اٹھائے گا جس میں فوجی کارروائی کا پہلو بھی شامل ہے۔
ایرانی خبر رساں ادارے پریس ٹی وی کے مطابق یہ رپورٹ روس میں تعینات سعودی سفیر کے بیان کے محض ایک دن بعد سامنے آئی ہے جس میں انہوں نے بتایا تھا کہ روس اور سعودی عرب کے درمیان ایس-400 میزائل کی خریداری کے لیے مذاکرات میں مثبت پیش رفت ہوئی ہے، اور دونوں فریقین معاہدے کی تکنیکی تفصیلات طے کررہے ہیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ برس اکتوبر میں سعودی فرماں روا شاہ سلمان کے دورہ روس کے دوران دونوں ممالک میں ایس-400 میزائل سسٹم کی خریداری کے ابتدائی معاہدوں پر دستخط کیے گئے تھے۔
مزید پڑھیں: خلیج تنازع: آخر قطر ہی کو نشانہ کیوں بنایا گیا؟
اس حوالے سے قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق رواں سال جنوری میں روس میں تعینات قطری سفیر نے بتایا تھا کہ روس سے جدید میزائیل نظام کے حصول کے لیے کیے جانے والے مذاکرات حتمی مرحلے میں ہیں۔
خیال رہے روسی وزیر دفاع سرگی شوئیگو نے گزشتہ برس خلیجی ممالک کا دورہ کیا تھا، جس میں قطر اور روس کے درمیان فوجی اور تکنیکی تعاون کے لیے اکتوبر 2017 میں ایک دفاعی معاہدہ کیا گیا تھا۔
الجزیرہ کے مطابق اس حوالے سے روسی دفاعی تجزیہ کار سے جب اس بابت پوچھا گیا کہ کیا سعودی دھمکی سے قطر اور روس کے معاہدے پر کوئی فرق پڑے گا تو ان کا کہنا تھا کہ حالیہ صورتحال میں ایسا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔
قطر اور سعودی تنازع
گزشتہ برس 5 جولائی کو سعودی عرب اور خلیجی تعاون کونسل کے ممالک نے قطر پر خطے میں دہشت گردی پھیلانے کا الزام لگاتے ہوئے قطر سے ہر قسم کے تعلقات منقطع کردیے تھے، تاہم قطر نے ہمیشہ ان الزامات کی تردید کی۔
یہ بھی پڑھیں: سعودی عرب سمیت 6 ممالک نے قطر سے سفارتی تعلقات ختم کردیئے
سعودی حکومت نے الزام عائد کیا تھا کہ 'قطر نے خطے کے امن و استحکام کو متاثر کرنے کے لیے مسلم برادرہڈ، داعش اور القاعدہ جیسے دہشت گرد اور فرقہ وارانہ گروپوں کی حمایت کی اور میڈیا کے ذریعے ان کے پیغامات اور اسکیموں کی تشہیر کی‘۔
سعودی حکومت کے فیصلے پر عمل کرتے ہوئے کچھ منٹ کے فرق کے بعد بحرین، مصر، متحدہ عرب امارات، یمن، لیبیا، مصر اور مالدیپ نے بھی قطر سے سفارتی تعلقات ختم کردیے تھے۔
ان ممالک نے نہ صرف سفارتی تعلقات ختم کیے، بلکہ اپنی اپنی ایئرلائنز کی سروسز معطل کرتے ہوئے قطر ایئرویز کو بھی ہوائی راستہ فراہم نہ کرنے کا اعلان کیا، اس کے ساتھ زمینی اور سمندری رابطوں کا سلسلہ بھی ختم کردیا گیا تھا۔
مزید پڑھیں: عرب ممالک کی جانب سے قطر کے اچانک بائیکاٹ کا سبب؟
اس کے علاوہ سفارتی تعلقات ختم کیے جانے کے ساتھ قطر کو سعودی سربراہی میں بننے والے اسلامی عسکری اتحاد سے بھی خارج کردیا گیا تھا، جبکہ یمن لڑائی میں شامل قطری فوج کو واپس بھیج دیا گیا تھا۔
قطر سے تعلقات ختم کرنے والے ممالک نے بظاہر صرف اخوان المسلمون اور ایران کے لیے دوحہ کی جانب سے نرم رویہ اختیار کرنے کو ہی سبب بنا کر تعلقات ختم کیے گئے تھے۔
لیکن سعودی عرب سمیت دیگر ممالک میں سے کسی نے بھی قطر کی جانب سے شدت پسندوں کی معاونت کرنے کے مستند ثبوت فراہم نہیں کیے، جبکہ قطر نے بھی اپنی صفائی میں بیانات کے علاوہ کوئی ثبوت پیش نہیں کیے۔
دوسری جانب قطر نے کوئی مستند دلائل پیش کرنے کے بجائے روایتی طریقے سے ان الزامات کو صرف بے بنیاد قرار دینے پر اکتفا کیا تھا۔