روزانہ بادام کھانے کے یہ فائدے جانتے ہیں؟
اگر بے وقت بھوک لگے تو چپس یا بسکٹ کی بجائے مٹھی بھر بادام کھالیں، یہ وہ مثالی گری ہے جسے دن بھر کھایا جاسکتا ہے، جس سے نہ صرف جسمانی توانائی میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ متعدد طبی مسائل کا خطرہ بھی کم ہوتا ہے۔
طبی ماہرین کے مطابق بادام متعدد اجزاءکے حصول کا قدرتی ذریعہ ہے جن میں پروٹین اور صحت بخش چربی قابل ذکر ہیں، روزانہ 30 گرام تک بادام کھانا صحت کے لیے فائدہ مند ہے۔
بادام وٹامن ای، غذائی فائبر، میگنیشم، کاپر، زنک، آئرن، پوٹاشیم اور کیلشیئم سمیت 15 غذائی اجزاءجسم کو فراہم کرتے ہیں۔
مزید پڑھیں : بادام کھانا موٹاپے کی روک تھام کے لیے بہترین
اس کے فوائد درج ذیل ہیں۔
طبی جریدے جرنل نیوٹریشنز میں شائع ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ روزانہ کچھ مقدار میں بادام کھانا خون میں چربی کی سطح میں کمی لانے میں مدد دے سکتا ہے، یہ چربی امراض قلب کا خطرہ بڑھاتی ہے۔
اسی طرح جریدے نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسین میں شائع ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی جو لوگ گریاں جیسے بادام روزانہ کھانا پسند کرتے ہیں، ان میں کسی بھی مرض کے نتیجے میں درمیانی عمر میں موت کا خطرہ ان افراد کے مقابلے میں 20 فیصد کم ہوتا ہے جو بادام کھانا پسند نہیں کرتے۔
اسی طرح پنسلوانیا اسٹیٹ یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ روزانہ کچھ بادام کھانے سے صحت کے لیے نقصان دہ کولیسٹرول کی سطح میں کمی آتی ہے جس سے ہارٹ اٹیک اور فالج کا خطرہ کم ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں : گریوں کے فوائد اور پکوان
اسی طرح بادام میں وٹامن اور ایسے اجزاءموجود ہوتے ہیں جو بالوں کی نشوونما اور مضبوطی کے لیے ضروری ہوتے ہیں، جیسے میگنیشم اور زنک بالوں کی نشوونما بہتر کرتے ہیں جبکہ وٹامن ای بالوں کو مضبوط اور وٹامن بی چمکدار بناتے ہیں۔
بادام میں مینگنیز نامی جز بھی موجود ہوتا ہے جو کہ کولیگن نامی ایک پروٹین کی مقدار بڑھاتا ہے جس سے جلد کو ہمرار رکھنے میں مدد ملتی ہے اور قبل از وقت جھریاں نمودار نہیں ہوتیں۔
اور یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ باداموں کی کچھ مقدار کو روز کھانا جسمانی میٹابولزم کو بہتر بناکر موٹاپے اور توند سے نجات دلانے میں مدد دے سکتا ہے بلکہ بہت تیزی سے چربی گھلاتا ہے۔
بادام کو دماغی غذا بھی کہا جاتا ہے جو کہ یاداشت کو بہتر بناتا ہے اور اس کی وجہ وٹامن ای اور فیٹی ایسڈز کی موجودگی ہے، آسان الفاظ میں یہ میوہ بڑھتی عمر کے اثرات دماغ پر طاری نہیں ہونے دیتا۔
نوٹ: یہ مضمون عام معلومات کے لیے ہے۔ قارئین اس حوالے سے اپنے معالج سے بھی ضرور مشورہ لیں۔