نقطہ نظر

کارگل جنگ: کیا حقیقت کیا فسانہ

معاملات اس قدر خفیہ رکھےگئے کہ سینئر فوجی قیادت بھی تب تک آپریشن سےلاعلم رہی جب تک آپریشن پر عملدرآمد شروع نہیں ہوگیا

پاکستان کی 70 سالہ تاریخ میں جھوٹ اور دھوکے کو اکثر سنگین غلطیوں، سازشوں اور فوج کے ایڈوینچرز پر پردہ ڈالنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ قوم سے حقائق چھپائے جاتے ہیں۔ ناکامی کو کامیابی بناکر پیش کیا جاتا ہے اور اس پر جشن منایا جاتا ہے۔ چنانچہ ہم آج تک اپنی غلطیوں سے نہیں سیکھ سکے۔

1965ء کی جنگ میں کیا ہوا اور 1971ء میں ملک کے 2 ٹکڑے کیوں ہوئے؟ اس کا اعتراف آج تک نہیں ہوا ہے۔ سخت سیکیورٹی والے ایک فوجی علاقے میں اسامہ بن لادن کی موجودگی اور مئی 2011ء میں امریکی فورسز کا اس کے ٹھکانے پر حملہ آج تک ایک معمہ بنا ہوا ہے۔

ان تمام واقعات پر انکوائری کمیشنز کی رپورٹیں قومی سلامتی کے نام پر الماریوں کی نذر کردی گئی ہیں۔ اس سے بھی زیادہ حیران کن حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے کچھ رپورٹیں غیر ملکی ذرائع کے ذریعے باہر آئیں، مگر شاید ان میں بھی مکمل حقیقت کی عکاسی نہ ہو۔

اس صورتحال کی وجہ سے عوام اور حکام کے درمیان اعتماد کا خلیج بڑھتا جا رہا ہے۔ حیرت کی بات نہیں کہ عوام اس معاملے پر غیر ملکی جریدوں کی خبریں مان لیتے ہیں چاہے وہ جتنی بھی غیر حقیقی کیوں نہ ہوں۔ سیکیورٹی ادارے اس قدر حساس ہوگئے ہیں کہ ان معاملات پر عوام میں بات کرنے کو بھی قومی سلامتی کے لیے نقصاندہ سمجھا جاتا ہے۔

کارگل میں ہماری فوج کا ایڈوینچر بھی ایسا ہی ایک واقعہ ہے جس پر اسی وجہ سے آج تک تحقیق نہیں ہوئی۔ جس یلغار کی وجہ سے پاکستان کو عسکری اور سفارتی سطح پر شدید شرمندگی اٹھانی پڑی، اور نتیجتاً ملک میں ایک اور مارشل لاء لگا، اسے آج تک صرف سول ملٹری تعلقات کی عینک سے ہی دیکھا گیا ہے۔

پڑھیے: کارگل کا ایڈونچر فورمین شو تھا: جنرل عزیز

مگر ایک نئی اور بہترین تحقیق پر مبنی کتاب From Kargil to Coup میں تجربہ کار صحافی نسیم زہرہ نے اس پورے مسئلے کا گہری تفصیل میں جائزہ لیا ہے۔ کارگل آپریشن کے تصور سے لے کر اس پر عملدرآمد تک کی تفصیلات بتاتے ہوئے وہ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان کشمیر تنازعے پر بھی تاریخی تناظر میں تجزیہ پیش کرتی ہیں جس کی وجہ سے دونوں ایٹمی ممالک اب تک 3 جنگیں لڑ چکے ہیں۔

واقعتاً اس مہم جوئی نے فوج اور سویلین حکام کے درمیان خلیج کو فاش کردیا تھا مگر یہ کہانی کا صرف ایک پہلو ہے۔ حقیقی مسئلہ یہ تھا کہ کس طرح جنرلوں کا ایک گروہ ملک کو ایٹمی جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کرسکتا ہے۔ معاملات اس قدر خفیہ رکھے گئے کہ سینئر فوجی قیادت بھی تب تک آپریشن سے لاعلم رہی جب تک کہ آپریشن پر عملدرآمد شروع نہیں ہوگیا۔

کارگل گروہ، جسے مصنفہ ان ’چار ٹاپ جنرلز کا گروہ‘ قرار دیتی ہیں، جس نے بعد میں منتخب حکومت کا تختہ الٹا، نے اسے ایک زبردست حکمتِ عملی قرار دیا جو صرف ’بزدل‘ سویلین قیادت کی وجہ سے اپنے مقاصد حاصل نہیں کرسکی۔ کتاب کو مزید اہمیت اس لیے بھی حاصل ہے کیوں کہ کارگل مسئلے کو عسکری فورمز پر بھی تفصیلی اور تنقیدی طور پر نہیں اٹھایا گیا ہے۔

کتاب اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ سویلین قیادت کو کبھی بھی آپریشن کے بارے میں اعتماد میں بھی نہیں لیا گیا تھا، اجازت لینا تو دور کی بات ہے جو ویسے قانونی ضرورت ہے۔ مئی 1999ء میں آپریشن کے آغاز کے تقریباً 6 ماہ بعد اس وقت کے وزیرِاعظم نواز شریف اور کابینہ کی دفاعی کمیٹی کو فوجی قیادت نے اس بارے میں مکمل بریفنگ دی۔ تب تک اس یلغار کے بارے میں سب جان چکے تھے۔ کتاب کہتی ہے کہ ’یہ آپریشن جبرالٹر کا تقریباً ہوبہو ری پلے تھا، مگر فرق صرف یہ تھا کہ کارگل میں سویلین اور ملٹری قیادت ایک صفحے پر نہیں تھے۔‘ آپریشن جبرالٹر کشمیر پر اس یلغار کا خفیہ نام ہے جس کی وجہ سے 1965ء کی جنگ ہوئی۔

مزید پڑھیے: کارگل کا سچ

کارگل آپریشن، جسے آپریشن کوہِ پیما کا خفیہ نام دیا گیا تھا، ہندوستان اور پاکستان کی جانب سے ایٹمی دھماکوں کے ایک سال بعد شروع کیا گیا۔ اس وقت کے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کی قیادت میں شروع ہونے والا آپریشن اس مفروضے پر شروع کیا گیا تھا کہ سیاچن میں ہندوستانی فورسز کی مرکزی سپلائی لائن کی حیثیت رکھنے والے ہائی وے کے ساتھ موجود اسٹریٹجک چوٹیوں پر قبضہ نئی دہلی کو مذاکرات کی میز تک آنے پر مجبور کردے گا۔

مصنفہ کے مطابق اس آپریشن کو عملی جامہ پہنانے کا فیصلہ کئی عوامل کی بناء پر کیا گیا جس میں مسئلہ کشمیر کو بین الاقوامی توجہ دلانا بھی تھا۔ ’جنرلوں کا گروہ اپنے مقاصد کے حصول کے حوالے سے پُراعتماد تھا۔‘ مگر تمام تر حساب کتاب کے برعکس یہ آپریشن شرمناک ناکامی میں تبدیل ہوگیا۔ پاکستان کو غیر مشروط طور پر علاقے سے واپس آنا پڑا۔ درحقیقت کارگل مہم جوئی کی وجہ سے کشمیر کے مقصد کو شدید دھچکا لگا کیوں کہ بین الاقوامی برادری اس مسئلے پر پاکستانی حمایت سے دستبردار ہوگئی۔

کتاب کا سرورق

ناگزیر طور پر آپریشن نے سول ملٹری تنازعے کو مزید بڑھاوا دیا جس کی وجہ سے اسی کارگل گروہ نے فوجی بغاوت کے ذریعے حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ قابلِ فہم ہے کہ ملک کو جس مہم جوئی کی بھاری قیمت چکانی پڑی، اس کی کوئی انکوائری نہیں ہوئی۔ کتاب اس خفیہ ملٹری آپریشن پر ضروری معلومات فراہم کرتی ہے جس پر عوامی گفتگو نہیں کی جاتی۔

اس کی مقصدیت اور غیر جانبداری کی وجہ سے کتاب کو مثبت ردِعمل ملا ہے۔ مگر گزشتہ ہفتے ہی آنے والی ایک اور کتاب پر سیکیورٹی اداروں اور سیاسی رہنماؤں کا سخت ردِ عمل دیکھنے میں آیا ہے۔

آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسد درانی اور بھارتی خفیہ ایجنسی را کے سابق سربراہ اے ایس دلت کی مشترکہ طور پر تحریر کردہ کتاب دی اسپائی کرونیکلز: را، آئی ایس آئی اینڈ دی الیوژن آف پیس گزشتہ ہفتے ہندوستان میں لانچ ہوئی۔ کتاب میں سابق پاکستانی انٹیلیجنس سربراہ کی جانب سے کچھ مسائل پر بات کی گئی ہے جس کی وجہ سے دو جنوبی ایشیائی پڑوسیوں کے درمیان امن کی کوششوں میں رکاوٹیں حائل ہیں۔

جانیے: کارگل جنگ اور جنرل عزیز کے ضمیر کی انگڑائی

جنرل درانی، جو بدنامِ زمانہ اصغر خان کیس کے بھی مرکزی کردار ہیں، انہیں فوج کے ضابطہءِ اخلاق کی مبینہ خلاف ورزی پر انکوائری کی وجہ سے ملک سے باہر جانے سے روک دیا گیا ہے۔ جس چیز نے فوج کو سب سے زیادہ مشتعل کیا ہے وہ ان کا تبصرہ ہے کہ پاکستان کی فوجی قیادت کو شاید اسامہ بن لادن کی رہائش پر امریکی حملے کے متعلق پیشگی اطلاع تھی۔

اس بات پر اتفاق ہوسکتا ہے کہ ان کی حساس حیثیت کی وجہ سے جنرل کو اپنے تبصروں میں زیادہ محتاط ہونا چاہیے تھا مگر انہوں نے ایسا کچھ نہیں کہا جو پہلے لکھا نہیں جاچکا ہے۔ یہ ردِعمل قومی سلامتی کے بارے میں فوج کے تنگ نظر تاثر کا عکاس ہے۔ ایک سابق جنرل کو بھی نہیں بخشا گیا۔

جنرل درانی نے بلاشبہ کوئی ریاستی راز فاش نہیں کیے ہیں اور ان پر سفری پابندیاں نہایت درشت ہیں۔ زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ دوسرے سینیئر فوجی افسران، بشمول سابق فوجی حکمران جنرل مشرف نے زیادہ کھلے انداز میں لکھا ہے۔

ہماری غلطیوں اور گھپلوں پر ایک کھلی بحث سے ریاست صرف مضبوط ہوگی، کمزور نہیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 30 مئی 2018 کو شائع ہوا۔

انگلش میں پڑھیں۔

زاہد حسین

لکھاری صحافی اور مصنف ہیں. ان کا ای میل ایڈریس zhussain100@yahoo.com ہے.

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔