لکھاری محکمہ آبپاشی، پنجاب میں ڈپٹی ڈائریکٹر، آؤٹ ریچ اینڈ ڈسیمینیشن، اسٹرٹیجک پلاننگ/ریفارم یونٹ کے ڈپٹی ڈائریکٹر ہیں۔
تازہ پانی کے ذخیروں میں کمی اور تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کی بڑھتی ہوئی طلب کے باعث پانی کی فی کس دستیابی کم سے کم تر ہوتی جا رہی ہے لہٰذا پاکستان پانی کے سنگین بحران کی طرف بڑھتا جا رہا ہے۔ رواں سال، موسمیاتی تبدیلی کے باعث آب گیری علاقہ (کیچمنٹ ایریاز) میں بارشوں کا سلسلہ نارمل مقدار سے بھی کم رہا، جس کی وجہ سے ہمارے دریاؤں میں پانی کا بہاؤ آج تک کی کم ترین سطح پر پہنچ چکا ہے۔
انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) نے اپنے حالیہ اجلاسوں میں انڈس بیسن سسٹم میں پانی کی شدید قلت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ پنجاب میں سردی کی فصلوں کے لیے زرعی پانی کا ذخیرہ تاریخی اوسطوں سے 40 فیصد کم رہا۔ ہمارا 90 فیصد سے زیادہ تازہ پانی زراعت میں استعمال ہوتا ہے اور ہماری 60 فیصد آبادی بالواسطہ یا بلاواسطہ زراعت سے وابستہ ہے۔
شہروں میں پینے کے پانی کی طلب میں اضافہ ہو رہا ہے کیوں کہ شہر پھیلتے جا رہے ہیں جبکہ وہاں معقول یا محتاط اربن واٹر مینجمنٹ موجود نہیں۔ کراچی کے کئی علاقے تو پہلے سے ہی کیپ ٹاؤن کے ڈے زیرو جیسی صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں۔
چیلنجز دگنے ہیں: دریاؤں میں پانی کے بہاؤ کی کمی اور لاپرواہ واٹر مینجمنٹ۔ چلیے پانی کی قلت سے شروع کرتے ہیں۔ فاکن مارک واٹر اسٹریس انڈیکیٹر کے مطابق فی کس کے حساب سے جب پانی کا ذخیرہ 1000 کیوبک میٹر تک ہو تو پھر یہاں سے پانی کی کمی شروع ہوجاتی ہے جس سے اقتصادی ترقی اور انسانی صحت متاثر ہوتی ہے۔ پاکستان میں فی کس 5 ہزار 650 کیوبک میٹر پانی کا ذخیرہ موجود تھا جو کہ مذکورہ فاکن مارک اسٹریس انڈیکیٹر کی حد سے کہیں زیادہ ہے۔
پڑھیے: کیا پانی کی خراب تقسیم کے پیچھے بھی ہمارا ’دشمن‘ ہے؟
سندھ طاس معاہدے کے بعد جہاں دریاؤں میں پانی کے بہاؤ میں کمی واقع ہوتی گئی وہیں آبادی میں بھی اضافہ ہوتا چلا گیا۔ پنجاب کے محکمہ آبپاشی سے وابستہ واٹر مینجمنٹ ماہر کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس فی کس 1000 کیوبک میٹر پانی کا ذخیرہ موجود ہے جبکہ یہ اعداد و شمار آبادی کے پرانے اندازوں کے مطابق پیش کیے گئے تھے۔
2017ء کی مردم شماری کے اعداد و شمار نے پانی کی دستیابی کے اس حساب کو پوری طرح سے بدل کر رکھ دیا۔ تازہ مردم شماری کے بعد یہ حساب سالانہ 850 کیوبک میٹر فی کس بنتا ہے، یوں ہم پانی کی قلت کا سامنا کرنے والے ممالک کی فہرست میں شامل ہوگئے۔ دریاؤں میں پانی کی کمی کا تعلق پڑوسی ملک میں ڈیموں کی بڑھتی ہوئی تعداد سے بھی جوڑا جاسکتا ہے، جو پانی کو بڑی مقدار کو نیچے دریاؤں تک پہنچنے سے روک دیتے ہیں، اور اس کے ساتھ ساتھ موسمیاتی تبدیلی کے باعث آب گیری علاقوں میں نارمل مقدار سے کم بارشوں کے ساتھ بھی جوڑا جاسکتا ہے۔
دوسری طرف، ہم نے اپنے آبی ذخائر، جو زمین کی سطح پر ہیں اور جو زیر زمین ہیں، کا مؤثر انداز میں انتظام سنبھالنے میں انتہائی کوتاہی برتی ہے۔ گزشتہ 6 دہائیوں کے دوران پاکستان نے ایک بھی بڑا آبی ذخیرہ تعمیر نہیں کیا۔ واپڈا کے ذرائع یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ پاکستان ہر سال 25 ارب روپے مالیت کا پانی ضائع کردیتا ہے۔
موجودہ دو آبی ذخیروں میں سے ایک تربیلا میں گارا جمع ہونے کی وجہ سے اپنی 30 لاکھ ایکڑ فٹ تک کی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کھوچکا ہے۔ 70 کی دہائی کے وسط میں اس کی تعمیر کے بعد کسی نئے آبی ذخیرے کو تعمیر کرنے میں ہماری ناکامی ہماری نااہلی اور مستقبل کے لیے بے فکری کو ظاہر کرتی ہے۔ ہم سالانہ 145 ملین ایکڑ فٹ (ایم اے ایف) پانی حاصل کرتے ہیں، جس میں سے ہم صرف 14 ایم اے ایف ذخیرہ کرتے ہیں۔
مزید پڑھیے: آبی مسائل کا ذمہ دار ہندوستان یا خود پاکستان؟
ارسا کے اعداد و شمار کے مطابق، پاکستان اوسطاً 30 ایم اے ایف پانی سالانہ سمندر میں بہا دیتا ہے جبکہ کوٹری ڈاؤن اسٹریم کی ماحولیاتی بقاء کے لیے 8 ایم اے ایف سے بھی کم کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہم عملاً نئے آبی ذخائر تعمیر نہ کرکے سونے جیسے قیمتی پانی کو ضائع کر رہے ہیں۔
خشک موسم سرما کے دنوں میں ہمارا آبپاشی کا تمام دار و مدار تربیلا اور منگلا ڈیمز میں ذخیرہ کیے گئے پانی پر ہوتا ہے۔ رواں سال پورے موسم بہار کے دوران دونوں ڈیموں میں پانی کی سطح کم ترین سطح پر رہی، لہٰذا انڈس بیسن کے آبپاشی نظام کے آخری سروں پر خاصی مقدار میں پانی کی دستیابی ممکن نہیں ہوپائی۔
ہماری نااہلی کی داستان یہیں پر ہی ختم نہیں ہوتی۔ بارشوں کا پانی ذخیرہ کرنے کے لیے بڑے بڑے آبی ذخائر کی عدم موجودگی اور خشک سردیوں کی وجہ سے ہمارے پانی کے زیر زمین ذخائر پر اضافی بوجھ پڑتا ہے۔ ہمارے کاشتکار اور ہمارے فراہمی آب کے شہری ادارے بے تحاشا مقدار میں قیمتی زمینی پانی کھینچ نکالتے ہیں۔ صرف پنجاب میں ہی، کم و بیش 12 لاکھ ٹیوب ویلز زرعی، شہری اور صنعتی ضروریات کو پورا کر رہے ہیں۔
ہم زیر زمین موجود پانی جس مقدار میں باہر کھینچ رہے ہیں اس کے مقابلے میں زیر زمین ذخائر میں بہت ہی کم پانی ڈال رہے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کو سالانہ 3 سے 4 ایم اے ایف کے خسارے کا سامنا ہے، اور ہمارے زیرِ زمین آبی ذخیرے میں خطرناک حد تک کمی واقع ہو رہی ہے۔ زیر زمین پانی کی کمی کو پورا کرنے کے لیے رین واٹر ہارویسٹنگ اور جزوی طور پر گندے پانی کے جھیلوں سے ٹریٹ شدہ پانی کے ذریعے پورا کرنے کے دو حل تو موجود ہیں مگر ہم ان اقدامات کو بڑے پیمانے پر کرنے سے ابھی کوسوں برس دور ہیں۔
ہمارے زرعی شعبے کی فلڈ ایریگیشن سے لگاؤ کی بھی ہمیں کافی بھاری قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔ ہم ان پرانے آبی طریقوں کو اختیار کرکے نہ صرف تازہ پانی کو ضائع کر رہے ہیں بلکہ اس طرح خطے کے لحاظ سے فی ایکڑ کے حساب سے سب سے کم فصل کی پیداوار ہمارے پاس ہوتی ہے۔
ابھی بھی موقع ہے۔ ہمیں فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ اب جبکہ ہماری قومی آبی پالیسی کی باضابطہ طور پر منظوری دے دی گئی ہے تو اب اسے دفتری الماریوں میں گرد آلود نہیں ہونے دینا چاہیے۔ ہمارے قومی اور صوبائی سطح کے واٹر مینجمنٹ ادارے، مقامی حکومت کے ادارے اور صحت عامہ اور آبپاشی کے محکموں کو آبی ذخیرے کی مینجمنٹ کو مؤثر بنانے کے کام کو عملی جامہ پہنانے کے لیے آپس میں عزم کرنا ہوگا۔
پڑھیے: پھر وہی ڈیموں پر بحث
ابتدائی طور پر صوبوں کو اپنے سیاسی اختلافات بھلا کر نئے آبی ذخائر کی تعمیر پر اتفاق کرنا چاہیے۔ آبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ہماری آبادی میں جس رفتار سے اضافہ ہو رہا ہے، اس طرح ہمیں ہر 10 سالوں میں تربیلا کے سائز کا ایک ڈیم چاہیے ہوگا۔
آبی پالیسیوں کے علاوہ ہمیں وفاقی اور صوبائی واٹر کمیشنز کی بھی ضرورت ہے تاکہ تمام سطحوں پر آبی وسائل کے مؤثر انتظام و انصرام کو یقینی بنایا جا سکے۔ اس کے علاوہ ہمیں اپنے کھیتوں، شہروں اور صنعتوں میں پانی کے مؤثر استعمال کو بھی فروغ دینا ہوگا۔
مگر سب سے پہلے ہمیں پہلے قدم اٹھاتے ہوئے مون سون کے اضافی پانی کو اسٹور کرنے کے لیے نیا ڈیم بنانا ہوگا۔ ابھی۔