کراچی جو اِک شہر تھا (دوسرا حصہ)
یہ اس سیریز کا دوسرا بلاگ ہے۔ پہلا حصہ یہاں پڑھیں۔
یہ سال 1972ء کے ابتدائی ایام تھے اور اُس دن سندھ کے شہر خیرپور میرس سے ہجرت کرکے کراچی سٹی ریلوے اسٹیشن پر اترنے والا وہ خاندان حافظ عبدالرحمٰن کیہر کا تھا۔ میں، یعنی عبیداللہ کیہر، عبدالرحمٰن کیہر کی 5 اولادوں میں چوتھے نمبر پر تھا۔ کراچی سٹی ریلوے اسٹیشن کی اُس یادگار صبح میں وہ میرا ازلی تجسس ہی تھا کہ جس نے مجھے ریلوے اسٹیشن سے باہر جھانکنے پر مجبور کیا تھا، پھر میرے لیے کراچی کا پہلا منظر ہی حیرت انگیز تھا۔ پاکستان کی بلند ترین عمارت حبیب بینک پلازا کے اُس اچانک جلوے نے مجھے ڈرا دیا تھا۔ یہ میری کراچی پر اولین نظر تھی۔
عبدالرحمٰن کیہر حافظِ قرآن اور عالمِ دین تھے۔ علمِ صرف اور علمِ نحو کے استاد تھے۔ مدارس میں تدریس، نماز جمعہ کی خطابت اور ماہِ رمضان میں تراویح پڑھانا ان کی زندگی کے اہم اجزاء تھے، لیکن یہ سب ان کا ذریعہ معاش نہیں تھا۔ اپنے روزگار کے لیے وہ درزی کا کام کرتے تھے۔ ’حافظ عبدالرحمٰن ٹیلر ماسٹر‘ کا بورڈ اُن کی مختصر سی دکان پر آویزاں رہتا تھا۔