پاکستان

خیبرپختونخوا اسمبلی میں فاٹا انضمام بل کی توثیق کردی گئی

اسمبلی اجلاس کے دوران جے یو آئی کے ارکان نے فاٹا کے خیبرپختونخوا میں انضمام کے خلاف نعرے لگائے۔

پشاور: جمعیت علمائے اسلام (ف) کی بھرپور مخالفت اور شہر میں جاری احتجاج کے باوجود خیبرپختونخوا اسمبلی میں فاٹا انضمام بل کی توثیق کردی گئی۔

خیبرپختونخوا اسمبلی کے اجلاس کا آغاز اسپیکر اسد قیصر کی زیر صدارت ہوا، اس موقع پر وزیر اعلی پرویز خٹک اور اپوزیشن لیڈر مولانا لطف الرحمٰن بھی موجود تھے۔

اسمبلی میں اجلاس کے دوران وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک نے بل کے مخالفین سے گزارش کی کہ بل کے حق میں اتحاد کرلیں۔

ان کا کہنا تھا کہ فاٹا میں بلدیاتی انتخابات اس ہی سال کرائے جائیں گے جبکہ عام انتخابات اگلے سال ہوں گے۔

انہوں نے اپنے ساتھی قانون سازوں کو بتایا کہ فاٹا ریفارمز کمیٹی کے اجلاس کے دوران چیف آف آرمی اسٹاف جنرل جاوید قمر باجوہ نے ان سے فاٹا کا مسئلہ ہمیشہ کے لیے حل کرنے کی درخواست کی تھی۔

صوبائی اسمبلی کے اجلاس کا آغاز ہوا تو اقلیتی رکن بلدیو کمار نے اپنے عہدے کا حلف اٹھالیا۔

خیال رہے کہ بلدیو کمار سابق مشیر سردار سورن سنگھ کے قتل کے الزام میں جیل میں قید تھے اور بلدیو کمار نے مذکورہ حلف ڈھائی سال کے بعد اٹھایا ہے جیسا کہ انہیں اس سے قبل اراکین اسمبلی نے متعدد مرتبہ حلف اٹھانے نہیں دیا۔

مزید پڑھیں: پشاور:فاٹا اصلاحات بل کی منظوری، جمعیت علمائے اسلام (ف) کا احتجاج

بعد ازاں صوبائی اسمبلی میں فاٹا انضمام بل وزیر قانون امتیاز شاہد نے پیش کیا، جس پر جماعت اسلامی کے پارلیمانی لیڈر عنایت اللہ نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے (فاٹا) اور صوبائی زیر انتظام قبائلی علاقے (پاٹا)، دونوں ہی دہشت گردی کا شکار رہے ہیں۔

عنایت اللہ نے مطالبہ کیا کہ آئندہ 10 سال کے لیے فاٹا اور پاٹا کو ٹیکس سے چھوٹ دی جائے جبکہ نظام شریعہ کو پاٹا میں دوبارہ لاگو کیا جائے۔

انہوں نے مزید مطالبہ کیا کہ پاٹا کو ایک سو ارب روپے کا پیکج دیا جانا چاہیے تاکہ اس علاقے کو بھی پسماندگی سے نکالنا جاسکے۔

علاوہ ازیں خیبرپختونخوا اسمبلی میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے پارلیمانی لیڈر سید محمد علی شاہ نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ڈھائی سال جے یو آئی (ف) کی وجہ سے فاٹا انضمام میں تاخیر ہوئی، اگر ڈھائی سال جے یو آئی نے شریعت کے لیے کچھ کیا ہوتا تو پورے ملک میں شریعت نافذ ہوچکی ہوتی۔

یہ بھی پڑھیں: قومی اسمبلی: فاٹا انضمام سے متعلق 31ویں آئینی ترمیم کا بل بھاری اکثریت سے منظور

اس موقع پر جے یو آئی کے ارکان صوبائی اسمبلی نے پیپلز پارٹی کے پارلیمانی لیڈر کے خلاف نعرے لگائے جبکہ جے یو آئی کے مفتی سید جانان اور سید محمد علی شاہ کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ بھی ہوا۔

پی پی پی کے پارلیمانی لیڈر کے بعد خیبرپختونخوا اسمبلی میں عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے پارلیمانی لیڈر سردار حسین بابک نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ خیبرپختونخوا اور فاٹا کے درمیان لکیر قدرتی نہیں بلکہ کھینچی گئی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ فاٹا ملک کا حصہ تھا اس لیے پاکستان میں موجود پشتون قوم کو قومی دھارے میں لائیں گے، انہوں نے دعویٰ کیا کہ پشتون قوم کو ایک پلیٹ فارم ہر لانا عوامی نیشنل پارٹی کا حدف ہے۔

سردار حسین بابک نے مزید کہا کہ اگلے مرحلے میں بلوچستان کے پشتون قوم کو قومی دھارے میں لائیں گے۔

ادھر صوبائی اسمبلی میں ناراض اراکین نے ہنگامہ آرائی کی، اس موقع پر رکن اسمبلی قربان علی خان نے کہا کہ مجھے بھی سن لیا جائے، آج سچ اور راز کی باتیں بیان کرنا چاہتا ہوں۔

اس موقع پر ہارس ٹریڈنگ کے الزام میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے نکالے گئے اراکین اسمبلی نے بھی ہنگامہ آرائی کی جبکہ خواتین اراکین نے بھی احتجاج ریکارڈ کرایا۔

ارکان صوبائی اسمبلی ایک دوسرے کے خلاف نعرے لگاتے رہے اور اس موقع پر اسپیکر ایوان کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہے۔

صوبائی اسمبلی میں اراکین کے احتجاج کے پیش نظر اسپیکر نے کہا کہ اہم دن ہے اراکین برداشت سے کام لیں۔

خیال رہے کہ وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقے (فاٹا) کے خیبرپختونخوا میں انضمام کے حوالے سے 31ویں آئینی ترمیمی کے بل کی خیبرپختونخوا اسمبلی سے ممکنہ توثیق کے خلاف جمعیت علمائے اسلام (ف) کے کارکنان نے صوبائی اسمبلی کے سامنے شدید احتجاج کیا جنہیں پولیس نے لاٹھی چارج کرکے منتشر کیا۔

مزید پڑھیں: فاٹاکا خیبرپختونخوا میں انضمام: سینیٹ سے 31ویں آئینی ترمیم منظور

جمعیت علمائے اسلام (ف) سے تعلق رکھنے والے کارکنان نے خیبرپختونخوا اسمبلی جانے والی سڑک پر ٹائر جلائے اور اسے دھرنا دے کر بلاک کر دیا تھا، اطلاعات کے مطابق جے یو آئی (ف) کے کارکنان صوبائی اسمبلی کے دروازوں کے قریب بھی دھرنا دے کر بیٹھے گئے تھے جس کی وجہ سے اسمبلی میں داخلی راستہ مکمل طور پر بند ہوگیا تھا۔

اس دوران مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپ اور ہاتھاپائی ہوئی جبکہ مظاہرین نے پولیس اہلکاروں پر پتھراؤ کیا، تاہم پولیس کی جانب سے مظاہرین پر لاٹھی چارج کیا گیا جس میں جے یو آئی (ف) کے کارکنان زخمی بھی ہوئے، جبکہ کارکنان وہاں سے منشتر ہوگئے۔

جے یو آئی (ف) کے مشتعل کارکنان نے ڈان نیوز کی گاڑی پر بھی حملہ کیا جس سے گاڑی کے شیشے ٹوٹ گئے۔

فاٹا انضمام کا بل

یاد رہے کہ 24 مئی کو فاٹا کا خیبرپختونخوا میں انضام کے حوالے سے 31ویں آئینی ترمیم کا بل حکمراں جماعت مسلم لیگ (ن) اور اپوزیشن کے درمیان افہام و تفہیم کے بعد قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا جسے بھاری اکثریت کے ساتھ منظور کر لیا گیا۔

قومی اسمبلی میں فاٹا کے انضمام کے حوالے سے ہونے والے اس اجلاس میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے بھی شرکت کی۔

قومی اسمبلی اجلاس میں فاٹا اصلاحات بل کی منظوری کے لیے رائے شماری کی گئی جس کی حمایت 229 میں اراکین نے ووٹ دیا جبکہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے منحرف رکن نے اس کی مخالفت میں ووٹ دیا۔

ایک روز بعد سینیٹ میں بھی 31ویں آئینی ترمیم دو تہائی اکثریت سے منظور کرلی گئی۔

فاٹا کے خیبرپختونخوا میں انضمام کے بعد کیا ہوگا؟

واضح رہے کہ فاٹا اصلاحات بل کے تحت سپریم کورٹ اور پشاور ہائیکورٹ کا دائرہ کار قبائلی علاقوں تک بڑھایا جائے گا جبکہ ملک میں رائج قوانین پر فاٹا میں عملدرآمد ممکن ہو سکے گا۔

اس کے علاوہ ’ایف سی آر‘ قانون کا خاتمہ ہوجائے گا اور اس کے ساتھ ساتھ صدرِ پاکستان اور گورنر خیبرپختونخوا کے خصوصی اختیارات بھی ختم ہوجائیں گے۔

فاٹا میں ترقیاتی منصوبے شروع کیے جائیں گے اور صوبوں کے اتفاق رائے سے فاٹا کو قابلِ تقسیم محاصل سے اضافی وسائل بھی فراہم کیے جائیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: ‘فاٹا کیلئے انضمام سے زیادہ ضروری یہاں بنیادی سہولیات کی فراہمی ہے’

فاٹا بل کی منظوری کے بعد قومی اسمبلی میں فاٹا کی نشتیں 12 سے کم ہوکر 6 ہوجائیں گی، جبکہ خیبر پختونخواہ کا قومی اسمبلی میں موجودہ حصہ 39 سے بڑھ کر 45 نشستیں ہو جائے گا۔

سینٹ میں فاٹا کی 8 نشتیں ختم ہوجائیں گی اور اس کے ساتھ ہی سینٹ اراکین کی کل تعداد 104 سے کم ہوکر 96 ہوجائے گی۔

اسی طرح قومی اسمبلی میں اراکین کی کل تعداد 342 سے کم ہوکر 336 ہوجائے گی جن میں جنرل نشستیں 226، خواتین کے لیے 60 جبکہ اقلیتی نشستیں 10 ہوں گی۔

بل کے مطابق 2018 کے انتخابات پرانی تقسیم کے تحت ہی ہوں گے، اور قومی اسمبلی میں منتخب ہونے والے 12 اراکین اپنی مدت پوری کریں گے۔

اس کے علاوہ 2015 اور 2018 کے سینٹ انتخابات کے منتخب 8 سینٹ اراکین اپنی مدت پوری کریں گے۔

2018 میں عام انتخابات کے ایک سال کے اندر فاٹا میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات ہوں گے، اور فاٹا انضمام کے بعد خیبر پختونخواہ اسمبلی کے اراکین کی تعداد 124 سے بڑھ کر 145 ہوجائے گی۔

فاٹا انضمام کے بعد خیبرپختونخوا میں فاٹا کی 21 نشستیں مختص ہوں گی، جس میں 16 عام نشستیں، خواتین کے لیے 4 نشستیں جبکہ ایک اقلیتی نشست شامل ہوگی۔