ایک ’قومی ایکشن پلان‘ اور چاہیے!
دہشت گرد کو مارا جاسکتا ہے، انتہاپسندی کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے، پُرتشدد واقعات پر بھی قابو پایا جاسکتا ہے، ٹارگٹ کلنگ کی بھی بیخ کنی کی جاسکتی ہے، لیکن یہ سب تب ہی ممکن ہوتا ہے جب ہمیں اپنا دشمن نظر آتا ہو، پھر ہم انتہاپسندوں کے خلاف منظم آپریشنز کرسکتے ہیں اور ٹارگٹ کلنگ کرنے والوں کو گرفتار کرکے کٹہڑے میں لاکر ان کے کیے کی سزائیں سناسکتے ہیں، اس طرح ملک دشمن اور سماج دشمن عناصر کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔
لیکن اگر ہم اپنے دشمن کو دیکھ ہی نہ سکتے ہوں تو؟
اگر ہمارا دشمن ہمیں تابکار شعاؤں سے ہی مار دے؟ نہ اس کا کوئی ٹھکانہ ہو؟ جہاں چھاپا پڑسکے، نہ ہی کوئی بیانیہ ہو؟ جس کے مقابلے میں ایک بہتر، مثبت اور پرامن بیانیہ پیش کیا جاسکے۔ دشمن چھپ کر حملہ نہ کرے بلکہ کھلم کھلا، دن دہاڑے اپنے شکار کو موت کے گھاٹ اتار دے!
نہ خون بہے، نہ آواز آئے، چاروں طرف لاشوں کا انبار ہو، قبریں کم پڑجائیں اور اجتماعی قبروں کا انتظام کرنا پڑے! دشمن صفِ ماتم پر بھی حملہ آور ہوجائے، اپنے پیاروں کے غم میں ڈوبے لوگوں پر بھی قاتلانہ شعاؤں کی بوچھاڑ کردے۔ امیر، غریب، مسلم، مسیح کسی کا لحاظ نہ کرے۔ بوڑھے، بچے، جوان، مرد و زن سب کو ایک ہی شدت سے مارے، کوئی ہتھیار اس پر اثر نہ کرے، وہ جب، جہاں، جس کو چاہے ’ٹھونک‘ دے، وی وی آئی پی پروٹوکول بھی اس کا مقابلہ نہ کرسکے، نہ کوئی بم نہ میزائل اس کو نقصان پہنچا سکے، تو ایسے سفّاک اور جابر دشمن سے آپ کیسے نمٹیں گے؟
موجودہ حالات میں تو ایسا ممکن نہیں ہے!
آپ سوچ رہے ہوں گے یہ کون سا نیا دشمن پیدا ہوگیا ہے؟ تو زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ آپ بھی اس دشمن کو جانتے ہیں، اس دشمن کا نام ہے ’گلوبل وارمنگ‘ یعنی عالمی حرارت۔ صرف 2015ء میں ہی کراچی میں اس نئے دشمن نے 2000 سے زائد افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا، اسپتالوں میں ایمرجسنی نافذ تھی، بستر کم پڑگئے تھے، مریضوں کو وہیل چیئر پر ایڈمٹ کیا جارہا تھا، شاید ہی شہر کا کوئی ایسا گھر ہو جو اس دشمن سے متاثر نہ ہوا ہو۔ جنازے اٹھے تو جنازوں میں شرکت کے لیے آنے والوں کے بھی جنازے اٹھ گئے تھے۔
اب اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے بحث چل پڑی ہے کہ اس سے کیسے نجات حاصل کریں؟ کیا حل نکالیں، تو میرے نذدیک تو اس مسئلے کا ایک ہی حل ہے، اور وہ ہیں درخت، اور درخت، مزید درخت.
سیدھا سیدھا سا حساب ہے، پر شخص اپنے حصے کا ایک درخت لگا دے، بس! یہ درخت گرمی کی حدت کو بھی کم کرتے ہیں، کاربن ڈائی آکسائڈ کو بھی جزب کرتے ہیں اور ہمیں زندہ رہنے کے لیے آکسیجن بھی فراہم کرتے ہیں۔ یہ آسان ترین حل ہے، لیکن افسوس بلکہ تف ہے کہ ہم نے اس جانب کوئی بھی ثابت یا جامد قدم نہیں اٹھایا ہے۔ اگر کراچی کی بات کریں تو صرف ڈیفینس ہاؤسنگ اتھارٹی نے یہ تدبیر اپنائی ہے کہ ہر گھر کے باہر ایک درخت لگایا جائے۔
پڑھیے: کیا کراچی گرمی کی اگلی شدید لہر کے لیے تیار ہے؟
لیکن کیا یہ مسئلہ صرف ڈیفینس کا ہے؟
جی نہیں! یہ مسئلہ پورے کراچی، سندھ، پاکستان، بلکہ پوری دنیا کا ہے۔
اقوامِ متحدہ نے اس خطرے کو بہت پہلے ہی محسوس کرلیا تھا، اس مسئلے کے تدارک کے لیے 1992ء میں برازیل کے شہر ریو میں ایک کانفرنس کا انعقاد ہوا اور ’انوائرنمنٹل سسٹین ابلٹی‘ (ماحولیاتی پائیداری) کو ملینیئم ڈیویلپمنٹ گولز کا حصہ بنایا گیا، لیکن ہم نے ’سانوں کی‘ کے فلسفے پر عمل کیا، ہر سال پاکستان میں سیلاب آتے رہے لیکن ہمارے کانوں پر جوں تک نہ رینگی، اور آخرکار 2015ء میں ہم نے گرمی کے باعث لاتعداد اموات بھی دیکھیں۔