سامان 100 ’دنوں‘ کا، پَل کی خبر نہیں!
صاحب یہ وقت اور دن کا معاملہ بھی عجیب ہے۔
کبھی لمحے، منٹ، گھنٹے، پہر اور دن ایسے کھنچتے چلے جاتے ہیں کہ شاعر سر پیٹ کر کہہ اٹھتا ہے:
30، 40 دن تو کاٹ دیے
اور کتنے ہیں اس مہینے میں
یا دن کی طوالت پر تڑپ کر کہتا ہے:
صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا
لیکن یوں بھی ہے کہ اک فرصت گناہ ملی وہ بھی چار دن!
اب ایسی صورت حال میں کچھ پتہ نہیں کہ تحریکِ انصاف کے 100 دن جوئے شیر لانے والے ہوں گے یا فرصت گناہ والے؟ مگر دعوے اور وعدے دیکھ کر لگتا ہے کہ ’تم سلامت رہو، ہزار برس، ہر برس کے ہوں دن 50 ہزار‘ جیسی کوئی دعا ’تحریکِ انصاف کی حکومت‘ کے لیے قبول کرلی گئی ہے، جس کی اطلاع عمران خان کو ’گھر پر‘ دے دی گئی ہے اور بتادیا گیا ہے کہ آپ کی حکومت کا ہر دن 50 ہزار گھنٹے کا ہوگا، چنانچہ ’وزیرِاعظم عمران خان‘ کی حکومت 100 دنوں میں بڑی فرصت سے پہاڑ کاٹ کر دودھ کی نہریں بہاسکتی ہے۔
بھئی سبز باغ تو سب ہی دکھاتے ہیں، سیاست نام اسی کا ہے، لیکن خان صاحب کے دکھائے ہوئے باغ کچھ زیادہ ہی ہریالے ہوگئے ہیں۔ مگر کوئی مانے یا نہ مانے ہمیں یقین ہے کہ یہ باغ ضرور اُگیں گے اور ان کے پھل ہم سب کھائیں گے۔ یوں تو سامان 100 ’دنوں’ کا ہے، پَل کی خبر نہیں، لیکن اُمید رکھنی چاہیے کہ یہ 100 دن ’ہر روز روزِ عید، ہر شب شبِ برات‘ ثابت ہوں گے۔
پڑھیے: لو آگئی میدان میں ’کھائو کماؤ پارٹی‘
لوگ خوامخواہ یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ تحریکِ انصاف نے جو وعدے کیے ہیں ان پر عمل کیسے ہوگا؟ اول تو امکان ہے کہ جس طرح ’35 پنکچر‘ والے بیانیے کو ’ایوئیں سیاسی بیان‘ کہہ کر جان چُھڑالی گئی، اسی طرح 100 روزہ منصوبے اور وعدے وعید کو سیاسی گپ شپ یا انتخابی مذاق مستی قرار دیا جاسکتا ہے۔
ویسے عمران خان اگر 100 دن میں ملک کے سارے مسائل حل کر ڈالیں تو ہمیں کوئی حیرت نہیں ہوگی، کیونکہ انہیں ایسا کردینے کے لیے ہر طاقت میسر ہے، جیسے تھپڑ مار نعیم الحق کی صورت میں جسمانی قوت، کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ الفاظ ادا کرنے کی صلاحیت رکھنے والے شاہ محمود قریشی کی زبانی قوت، محترمہ شیریں مزاری کی جذباتی قوت اور سب سے بڑھ کر روحانی قوت تو خان صاحب کے گھر میں موجود ہے۔ اتنی ساری قوتوں کے ساتھ نیا کیا، نیا نویلا پاکستان بنا کر کھڑا کیا جاسکتا ہے۔
کوئی کچھ بھی کہے ہمارے خیال میں تحریکِ انصاف اپنے وعدے باآسانی پورے کردے گی، کس طرح؟ کچھ وعدوں کے بارے میں ہم ہی آپ کو بتا دیتے ہیں کہ انہیں کیسے پورا کیا جائے گا:
تمام صوبوں میں پولیس کو غیر سیاسی بنایا جائے گا اور ایسا کرنا ذرا بھی مشکل نہیں، ہماری پولیس غیر مہذب، غیر اخلاقی زبان کی ماہر، غیر شریفانہ اطوار کی حامل اور غیر ذمہ دار تو پہلے ہی ہے، شہریوں کے لیے وہ غیر بلکہ غیر ملکی بھی ہے، اب اتنی غیر پولیس کو غیر سیاسی بنانے میں کتنی دیر لگے گی!
ایک کروڑ نوکریاں پیدا کرنے کے لیے حکمتِ عملی سامنے لائی جائے گی۔ اس وعدے کو دیگر وعدوں سے ملاکر پڑھیں، جیسے صوبہ جنوبی پنجاب کے قیام کے لیے قومی اتفاق رائے پیدا کیا جائے گا۔ ہمارے یہاں تو چاند کے معاملے پر اتفاق رائے نہیں ہوپاتا اور یہ تو زمین کا مسئلہ ہے، اس لیے 20، 25 لاکھ نوکریاں تو اسی مد میں نکل آئیں گی، لاکھوں افراد کو بھرتی کرکے کہہ دیا جائے گا کہ جاؤ اور جنوبی پنجاب صوبے کے لیے قوم کو راضی کرتے پھرو۔
دوسرے یہ جو ’10 ارب درخت لگائے جائیں گے‘ ان کے گننے کے لیے بھی 30 سے 40 لاکھ افراد بھرتی کیے جاسکتے ہیں۔ واضح رہے کہ وعدہ نوکری دینے کا ہے تنخواہ دینے کا نہیں۔
’نئے سیاحتی مقامات دریافت کیے جائیں گے‘ ان میں سے ایک تو جاتی امراء کی عمارت ہوگی، جو تب تک خالی ہوچکی ہوگی، اگر حکومت بنانے کے لیے پیپلزپارٹی کی ضرورت نہ پڑی تو سیاحت کے لیے خالی ہوجانے والا دوسرا دریافت شدہ مقام بلاول ہاؤس ہوسکتا ہے۔ اسی طرح نائن زیرو کو بھی سیاحتی مقام کا درجہ دیا جاسکتا ہے، ان مقامات کو مقامات آہ و فغاں قرار دیا جاسکتا ہے، جہاں متعلقہ جماعتوں کے لوگ پہنچیں اور ٹکٹ لے کر زیارت اور گریہ برائے قیادت کریں۔
ارے صاحب! یہ سب تو چھوٹے وعدے ہیں اصلی تے وڈا وعدہ تو عمران خان نے یہ کہہ کر کیا ہے کہ ’موٹروے بنانا کون سا مشکل کام ہے، اصل کام قوم بنانا ہے‘ یعنی خان صاحب 100 دن 5 سے 5 کے دوران قوم بنائیں گے۔ سوال یہ ہے کہ کیا نئے پاکستان کی طرح یہ بھی نئی پاکستانی قوم ہوگی؟ جواب یہ ہے کہ پتہ نہیں، عمران خان جانیں۔
پڑھیے: اب سے ’مائے نس‘ صرف عمران خان!
ہم ممکنہ وزیراعظم عمران خان کی خدمت میں یہ مشورہ پیش کریں گے کہ وہ قوم بنانے کا آغاز گھر سے کریں، ارے ہمارا مطلب ہے کہ سب سے پہلے مخدوم شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین کو ’ایک قوم‘ بنادیں۔ ورنہ ان کی حکومت کے 100 دن تو ان دونوں حضرات کو ایک پیج پر لانے اور روٹھنے منانے میں ہی نکل جائیں گے۔
عثمان جامعی شاعر، قلم کار، مزاح نگار، بلاگر، صحافی ہیں۔ آپ کی تین کتابیں شائع ہوچکی ہیں، جن میں فکاہیہ مضامین کا مجموعہ ’کہے بغیر‘، شعری مجموعہ ’میں بس ایک دیوار‘ اور کراچی کے حوالے سے ناول ’سرسید، سینتالیس، سیکٹرانچارج‘ شامل ہیں۔ آپ اس وقت ایک اخبار میں بطور ’سنڈے میگزین‘ انچارج ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔