کراچی جو اِک شہر تھا (پہلا حصہ)
خیرپور میرس سے صبح کی چلی ہوئی ریل گاڑی سارا دن سندھ کے زرعی میدانوں میں دوڑتے دوڑتے جب کوٹری سے آگے کوہستانی ویرانوں میں داخل ہوئی تو سورج غروب ہو رہا تھا۔ 70 کی دہائی میں شاید ریل گاڑیاں چلتی بھی آہستہ تھیں، اسی لیے کراچی پہنچتے پہنچتے خاصی رات ہوگئی۔ کراچی سٹی ریلوے اسٹیشن پر جب عبدالرحمٰن کیہر اپنی بیوی اور 5 بچوں کے ساتھ لشٹم پشٹم اترے تو رات کے 11 یا 12 بج رہے تھے۔ چنانچہ انہوں نے فیصلہ کیا کہ اتنی رات گئے اسٹیشن سے باہر نکلنے کے بجائے یہ رات وہیں ریلوے اسٹیشن کے مسافر خانے میں گزاری جائے۔
عبدالرحمٰن صاحب کے بچے، جنہوں نے پہلی مرتبہ اتنا طویل سفر کیا تھا، ہیجان سے ان کی نیند غائب تھی اور وہ اسٹیشن کے ویران پلیٹ فارم پر یہاں سے وہاں دوڑیں لگا رہے تھے۔ امّی نے مسافر خانے کے فرش پر دری بچھا کر ان کے سونے کا انتظام تو کردیا تھا، لیکن جب وہ سوئیں۔ اسٹیشن کے قریب سمندر سے ٹھنڈی ہواؤں کے فرحت بخش جھونکے آرہے تھے اور اس ہوا سے لطف اندوز ہونے والے اس نو وارد خاندان کو اس بات کا اندازہ ہی نہیں تھا کہ یہ سمندری ہوا ہے۔ بالآخر بچے سوگئے۔
صبح سویرے چڑیوں کی چہچہاہٹ سے ایک بچہ سب سے پہلے بیدار ہوا۔ اس نے باقی سب لوگوں کو نیند میں پایا تو خود ہی اٹھا اور چھوٹے چھوٹے قدموں سے چلتا ہوا اسٹیشن کی عمارت کے مرکزی دروازے کی طرف بڑھنے لگا۔ دروازے پر پہنچ کر اس نے ڈرتے ڈرتے ایک قدم باہر نکالا اور ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ یہ ایک چوڑی گلی تھی جس کے دونوں طرف اونچی عمارتیں تھیں، لیکن اس مختصر سی گلی کے آخر میں شاید ایک زیادہ چوڑی سڑک تھی جس پر صبح کے دھندلکے میں اکا دکا بگھی گزرتی نظر آتی تھی اور اس کے گھوڑوں کی ٹپاٹپ مدھم سروں میں یہاں تک پہنچ رہی تھی۔