پلوٹو پر ایک سادہ سے مشن کی کہانی 'چیزنگ نیو ہوریزن'
دنیا بھر سے علم فلکیات کے شیدائیوں کے لیئے 20 اگست 1977 کا دن غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔
اس روز "وائجر ٹو " نامی سپیس پروب کو اس ٹراجیکٹری پر روانہ کیا گیا جس سے اسے مشتری، زحل ، اس کے چاند "ٹائٹن"، یورینس اور نیپچون تک رسائی حاصل کرنا تھی۔
اس کے سترہ دن بعد پانچ ستمبر 1977 کو "وائجر ون" کو خلا میں بھیجا گیا جس کی مخصوص ٹراجیکٹری ابتدا میں مشتری اور زحل تک محدود تھی، مگر بعد میں تین دفعہ اس میں توسیع کی گئی۔
ابتدائی فیز میں دونوں سپیس شپ کو اپنی طے شدہ ٹراجیکٹری سے گزرتے ہوئے متعلقہ سیاروں کی تصاویر اور ڈیٹا فراہم کرنا تھا۔ جس کی تکمیل کے بعد دوسرا فیز شروع ہوا اور اسے "ہیلیو سفیئر" کا نام دیا گیا، یہ سورج کے گرد غبارے یا بلبلے نما خلائی علاقے کو کہا جاتا ہے جو آگے پلوٹو تک پھیلا ہوا ہے۔
مزید پڑھیں: نئے آفاق کی تلاش میں خلائی جہاز پلوٹو جا پہنچا
وائجر مشن کی کامیابی کے ساتھ ہی سائنسدانوں اور ماہرین فلکیات نے ایسے مشن کے متعلق منصوبہ بندی شروع کردی تھی جس کے ذریعے پلوٹو اور کیوپر بیلٹ پر واقع فلکیاتی اجسام کی کھوج لگائی جا سکے۔ ان سائندانوں میں 'ایلن سٹرن' کا نام سر فہرست ہے جو فی الوقت ناسا کے پلوٹو سسٹم اور کیوپر بیلٹ ایکسپلوریشن مشن میں پرنسپل انویسٹی گیٹر کی حیثیت سے ذمہ داریاں سر انجام دے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ ناسا کے دیگر 29 منصوبوں کا بھی حصہ ہیں جو ہمارے نظام شمسی کے دیگر سیاروں سے متعلق ہیں۔
ایلن سٹرن نے 1989 میں پلوٹو کی جانب ایک سپیس پروب بھیجنے کا آئیڈیا پیش کیا تھا، اس کے بعد تقریباً پندرہ سال تک وہ اپنی ٹیم کے ساتھ ناسا کے آفیشلز کو اس منصوبے کی اہمیت پر قائل کرتے رہے۔ بلا آخر ا نکی کئی عشروں کی کوششیں رنگ لائیں اور مئی 2015 میں 'نیو ہوریزن' پروب کو پلوٹو کی جانب روانہ کیا گیا تو ساری دنیا اس مشن کے حوالے سے غیر معمولی تجسس میں مبتلا تھی۔ اس پروب نے پلوٹو کے قریب سے گزرتے ہوئے اس کی اس قدر واضح تصاویر اور معلومات فراہم کیں جو آج تک کسی اور ذریعے سے حاصل نہیں ہو سکیں۔ پلوٹو کو کچھ عرصے پہلے تک نواں سیارہ سمجھا جاتا تھا مگر درحقیقت یہ ڈوارف پلینٹ اپنے اندر ایک انوکھی دنیا سموئے ہوئے ہے۔ جہاں کی ناصرف سطح متغیر ہے بلکہ برف کے آتش فشاں (آئسی وولکانو) بھی ہیں اور نائٹروجن کی برف کے تہوں کی بہتات کے باعث اس کا ماحول بھی شدید حبس ذدہ ہے۔
ایلن سٹرن اور انکی ٹیم کے مطابق نیو ہوریزن سپیس کرافٹ میں ابھی اتنا ایندھن اور طاقت موجود ہے کہ یہ کئی عشروں تک اپنا سفر بغیر کسی تکنیکی رکاوٹ کے جاری رکھ سکتی ہے۔ فی الوقت یہ مشن ہائبرنیشن پیریڈ پر ہے اور اگلے سال کی ابتدا تک یہ کرافٹ کیوپر بیلٹ پر واقع اہم فلکیاتی اجسام تک پہنچ چکی ہوگی ان میں سائنسدانوں کی خصوصی توجہ کا مرکز 'الٹیما تھولا ' نامی خاص اجسام ہیں جنہیں پلوٹو جیسے چھوٹے سیاروں کی تشکیل میں بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ اس کے ساتھ ہی ایلن سٹرن کی ٹیم 'یورپا کلپر' جیسے کچھ اور مشنز بھی ڈیزائن کر رہی ہے جن کے ذریعے نظام شمسی کے بارے میں اتنی معلومات حاصل ہونے کا امکان ہے جو ہبل اور 2019 میں لانچ کی جانے والی جیمز ویب ٹیلی سکوپ سے بھی ممکن نہیں ہیں۔
یکم مئی 2018 کو کئی عشروں پر مشتمل نیو ہوریزن مشن پر لکھی گئی ایک کتاب 'چیزنگ نیو ہوریزن' منظر عام پر آئی جسے ایلن سٹرن نے اپنے ساتھی مصنف ڈیوڈ گرن سپون کے ساتھ مل کر تحریر کیا ہے۔ ڈیوڈ گرن سپون ایک ماہر فلکیاتی طبیعات اور ایوارڈ یافتہ مصنف ہیں اور اس کے ساتھ ناسا کے کئی اہم سپیس مشنز میں ایڈوائزر کی حیثیت سے ذمہ داریاں بھی سر انجام دے رہے ہیں۔