دارا شِکُوہ، آگرہ کے محلات سے سندھ کے ویرانوں تک
دارا شِکُوہ، آگرہ کے محلات سے سندھ کے ویرانوں تک
تاج محل کے لیے یہ مشہور ہے کہ وہ انتہائی نازک، نفیس اور خوبصورت بنا ہوا ہے، لوگ جب اسے اندر سے دیکھنے کے لیے داخل ہوتے ہیں تو ایک فرحت اور سُکون کے احساس کا سحر ان کو جکڑ لیتا ہے اور وہ ممتاز محل اور شاہ جہاں کے مُتعلق سوچ کر ایک یوٹوپیائی دُنیا میں پہنچ جاتے ہیں۔ پھر وہ اُن گزرے دنوں کے تصور کو اَپنی ناکام تمناؤں کی مٹی میں گوندھ کر عجیب و غریب اور رنگین دُنیا کے خیالات ذہن کی تختی پر بُننا شروع کردیتے ہیں۔
ہو سکتا ہے اس خیالی دُنیا میں آپ نے کچھ تَصور ایسے بھی بُن دیے ہوں جو حقیقت کے قریب تر ہوں۔ مگر جہاں تک میری عقل کی دوڑ ہے تو وہ تو یہ بتاتی ہے کہ ان بادشاہوں کو سُکون تب ہی نصیب ہوا ہوگا جب اُن کے سانس کی ڈوری ٹوٹی ہوگی، کیوں کہ وہ اگر ایک ماہ سکون سے گزارتے تو اُس کے بدلے پانچ برس تک اُن کے ذہن میں اتنی خرافات اور پریشانیوں نے جنم لیا ہوگا کہ انسان آدھا پاگل ہوجائے۔
نورجہاں کے بعد ممتاز محل کو مغلیہ سلطنت کی بااختیار ملکہ مانا جاتا ہے۔ شاہ جہاں کو ویسے تو اوروں سے بھی محبت تھی لیکن ارجمند بانو بیگم سے بہت زیادہ محبت تھی۔ دونوں کی عمر میں بس ایک برس کا فرق تھا۔ ارجمند بانو 1593ء کے گرم موسم میں پیدا ہوئی اور وفات بھی 1631ء کے جون کے مہینے میں ہوئی۔
شاہ جہاں 1592ء جاڑے کے موسم میں لاہور میں پیدا ہوا۔ اپنی 74 برس کی زندگی میں سے 35 برس اس نے ممتاز محل کے بغیر بتائے اور 1666ء کے جاڑے کے ٹھنڈے دنوں میں یہ جہاں چھوڑا۔ ان دونوں کی محبت کا کمال یہ ہی رہا کہ تاج محل دے گئے۔ شاہ جہاں نے جتنا تاج محل کے لیے سوچا اُتنا اگر اپنی بگڑی ہوئی اولاد کے متعلق سوچتا تو شاید اُس زمانے کا نقشہ ہی اور ہوتا۔ تاریخ کے صفحات میں ان کے چار بیٹوں اور دو بیٹیوں کا ذکر ملتا ہے اور بڑی فراوانی سے ملتا ہے۔
20 مارچ 1615ء کو اجمیر میں پیدا ہونے والا ’دارا شِکوُہ‘ لمبی عمر نہ پا سکا۔ وہ شاہ جہاں کا سب سے بڑا بیٹا تھا اور اس نے طبیعت بھی اپنے بھائیوں سے کچھ مُختلف پائی تھی۔