سبیکا شیخ کے نام ایک امریکی کا خط
پیاری سبیکا،
امریکی ریاست ٹیکساس میں واقع سانتا فی ہائی اسکول میں فائرنگ کے واقعے کو کافی دن گزرچکے ہیں۔ وہی واقعہ جس میں تم، 17 سالہ پاکستانی، ایکسچینج پروگرام کے تحت امریکا گئی اور ان 10 ہلاک ہونے والے طلباء میں شامل ہوگئی۔
اس دن کے بعد سے میڈیا کے ذریعے مجھے بہت کچھ معلوم ہوا اور تمہارے گھر والوں اور دوست احباب سے بھی تمہاری تعریفیں سننے کو ملیں۔
تم کئی خوبصورت خوبیوں کی مالک تھیں، لیکن ان میں سب سے خاص تمہارا خالص اور پاکیزہ انداز میں پُرامید رہنا تھا۔
بلاشبہ، گہرائی تک پھیلی دشواریوں سے بھرپور اس دنیا میں، جہاں کئی ڈراؤنے خوابوں جیسے منظرنامے حقیقت کا روپ لے چکے ہیں وہیں تم اچھی باتوں کے خواب بننے کی جرات کرتی تھیں۔
رواں سال ہی تم نے شمالی کیرولینا میں بیرون ملک ایکسچینج طلباء کی ایک نشست کے دوران کہا تھا کہ تم ہر رات ایک پُرامن دنیا میں نیند سے جاگنے کی دعا مانگتی ہو۔
اس وقت جب امریکا کی عالمی ساکھ انتہائی متاثر ہے تمہیں تب بھی امریکا میں کچھ اچھا ہی نظر آیا۔ تمہارے والد کو یاد ہے کہ وہاں جانے سے پہلے تم نے تاریخِ امریکا پڑھ رکھی تھی تاکہ بہترین لوگوں سے کچھ سیکھا جاسکے۔
تمہارا ماننا تھا کہ امریکا تعلیم کے حصول کے لیے محفوظ اور خاص جگہ فراہم کرتا ہے۔ تم پاکستانی سفارت کار بننا چاہتی تھیں اور پاک امریکا تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے مدد کرنا چاہتی تھیں۔
تمہارا تعلق کراچی سے تھا، جہاں اب پہلے جیسی دہشتگردی نہیں ہے، اور تم پاکستان کے مغرب اور شمال میں واقع سب سے زیادہ متنازع علاقوں سے کافی دور رہتی تھیں۔
پھر بھی، تمہارے ملک کی کئی مایوس کن پہلوؤں، جن میں سے ایک انتہاپسندی بھی ہے جس سے دوری پانے کے لیے تم اطلاعات کے مطابق حصولِ تعلیم کے لیے امریکا چلی گئی تھیں، تمہارے اتنے جلدی بڑے ہوجانے کے پیچھے ایک اچھی وجہ بھی تھی۔
بلاشبہ، پاکستان اور اس سے دور، جنگ کے زخموں سے متاثر، امراض سے بے حال اور تعصب کے شکار نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ہے، اور اس کے ساتھ طاقتور سوشل میڈیا کے مرہون منت عالمی سطح کے ہم عمر افراد کا درد دیکھ کر وہ صدمے کا شکار ہیں، انہیں جلد سے جلد بڑا ہوجانا چاہیے۔
مختصراً، اگر تم تنگ ہوکر بیٹھ جاتی یا غصیل ہوجاتی تو یہ اچنبھے کی بات نہ ہوتی۔
مگر تم نہ تنگ آئی نہ غصیل بنی، بلکہ پُرامیدی تمہارے اندر گہرائی تک بسی ہوئی تھی اور تمہاری موت تک تمہارے اندر ہی بسی رہی۔
کتنے دکھ بھری اور المناک بات ہے کہ وہ ملک جسے تم پسند کیا کرتی تھی اور جو ملک تمہیں اس قدر امیدیں باندھنے کی وجہ بنا، اس ملک نے نہ صرف تمہیں شرمندہ کیا بلکہ تمہاری جان تک لے لی۔
اب تم بھی بدترین امریکی گن کلچر کے متاثریں میں سے ایک بن چکی ہو، وہ کلچر جو اس ملک میں نہ جانے کتنی جان نگل چکا ہے، مگر ان واقعات کا سلسلہ رکتا ہی نہیں۔
مجھے ایک دوسری بات نے بھی ہلا کر رکھ دیا ہے: تمہاری موت نے کئی امریکیوں کے ذہنوں میں پلتے ایک نظریے کو بدل دیا ہے۔
تقریباً 8 برس قبل، نیوزویک نے اپنی ایک شہہ سرخی میں پاکستان کو دنیا کا سب سے خطرناک ملک قرار دیا تھا۔ آج بھی کئی امریکی، جو اکثر ڈینیل پرل کی موت اور اسامہ بن لادن کی پاکستان میں موجودگی کے ببانگ دہل حوالہ دے کر پاکستان کو سب سے زیادہ بالخصوص امریکیوں کے لیے خطرناک ملک کے طور پر دیکھتے ہیں۔
اور ایک تم: ایک پاکستانی طالبہ جو ایک امریکی دہشتگرد کے ہاتھوں ماری گئیں۔ وہ بھی امریکا کی زمین پر۔
آج ایسا لگتا ہے کہ جیسے جس عینک سے امریکی پاکستان کو دیکھتے تھے اب وہی عینک پاکستان نے پہن لی ہے، اس عینک میں امریکا کا بدصورت مہلک چہرہ صاف نظر آتا ہے۔ اب بھی کئی افراد اس چہرے کو امریکا کا چہرہ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔
واضح انداز میں نظر نہ آنے والا یہ چہرہ ایک تلخ حقیقت ہے، جو امریکا کے بہتر پلوؤں پر توجہ مرکوز کرنے کے تمہارے عزم کو اور بھی زیادہ قابل تعریف بنادیتا ہے۔
تمہارے والد نے کہا کہ وہ امید کرتے ہیں کہ تمہاری موت کے بعد امریکا جلد ہی گن اصلاحات لائے گا۔
افسوس کے ساتھ، ایسا مستقبل قریب میں ہوتا نظر نہیں آتا۔ اس سے قبل اسکول میں فائرنگ کے درجنوں واقعات ہوئے، جن میں 2012ء میں ہونے والا واقعہ بھی شامل ہے جس میں 6 سے 7 برس کے 20 بچے مارے گئے تھے، ان واقعات کے بعد بھی کوئی تبدیلی نہ آسکی۔
نہ ہی امریکا کی تاریخ کی سب سے سرگرم مہم کوئی تبدیلی لاسکی، جو فروری میں پارکلینڈ، فلوریڈا اسکول میں ہونے والی فائرنگ کے واقعے میں بچ جانے والوں نے شروع کی تھی۔
سانتا فی میں فائرنگ کے واقعے کے بعد سے ہم وہی پرانا راگ سن رہے ہیں: امریکی سیاسی لیڈران ہر چیز کو ان واقعات کا ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں کہ اس کے پیچھے وڈیو گیمز ہیں، ناکافی مذہبی تربیت، بہت زیادہ منشیات کا استعمال، حتیٰ کہ اسکول میں زیادہ دروازوں کو بھی اس کی وجہ بتایا جارہا ہے، مگر اسکول میں ہونے والے قتلِ عام میں استعمال ہوتے اسلحے یا گنز کا نام کوئی نہیں لیتا۔
بلاشبہ امید کی کرن شاید ہی نظر آئے مگر ہمیں امید کی کرن تلاش کرنے کی کوشش کرنی ہوگی، شاید اس طرح اس انسان کو خراج تحسین پیش کرسکیں جو اپنے اندر بے شمار امیدیں روشن رکھتا تھا۔
یہ بھی تو ایک امید کی کرن ہی ہے، کہ تم نے اپنی اس چھوٹی عمر میں سفارت کار بننے کا مقصد حاصل کرلیا۔
تمہاری پہلی اور واحد بیرون ملک تعیناتی ٹیکساس میں ہوئی، جہاں تم نے بطور ثقافتی سفیر خدمات انجام دیں، جو تمہارے جیسے مؤثر غیر ملکی ایکسچینج طلبا کو ان کی زبردست صلاحیتوں کی بناء پر دیا جانے والا ایک غیر رسمی درجہ ہے۔
تم پاکستان اور امریکا کو قریب لے آئی، لیکن کتنی المناک بات ہے کہ یہ قربت خیر سگالی کی وجہ سے نہیں بلکہ تمہارے غم کی وجہ سے ہے۔
ایک اور بھی امید کی کرن ہے، اور وہ یہ کہ تم نے ایک گونج دار آواز میں یہ یاددہانی کرادی ہے کہ نوجوان ہی پاکستان کا سب سے عظیم اثاثہ ہیں۔ ایک ایسا ملک جہاں دو تہائی آبادی کی عمر 30 سے کم ہے اور جہاں آبادی کی اوسط عمر 23 برس ہے، ان میں کئی سبیکائیں نظر آئیں گی جو نوجوان، ذہین، پُرامید اور پاکستان سمیت دنیا کو رہنے کے لیے ایک بہتر جگہ بنانے کے لیے پُرعزم ہوں گی۔
ہم امید کرتے ہیں مستقبل میں ہمیں یہاں دوسری سبیکاؤں کے بارے میں سننے کو ملے گا، جی نہیں ان کی المناک موت کی خبریں نہیں بلکہ اپنی زندگیوں میں اثرانگیز کاموں کی وجہ سے۔
مجھے امید ہے کہ آپ سب ان سبیکاؤں کی حوصلہ افزائی کریں گے۔
مائیکل کوگلمین وڈرو ولسن انٹرنیشنل سینٹر فار اسکالرز، واشنگٹن میں جنوبی ایشیا کے لیے سینیئر پروگرام ایسوسی ایٹ ہیں۔
ان کا ای میل ایڈریس michael.kugelman@wilsoncenter.org ہے جبکہ وہ ٹوئٹر پر MichaelKugelman@ کے نام سے لکھتے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔