پاکستان

توہین عدالت کیس: طلال چوہدری کو اپنے دفاع میں گواہان پیش کرنے کا حکم

مفرور ملزم نہیں، میرے خلاف الیکشن مہم اسی بنیاد پر چلائی جارہی ہے کہ مجھے سزا ہوگی، وزیرِ مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری
Welcome

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے توہینِ عدالت کیس میں وزیر مملکت برائے داخلہ امور طلال چوہدری کو ہدایت جاری کی ہے کہ وہ اپنے دفاع میں گواہان پیش کرنے کا حکم دے دیا۔

عدالتِ عظمیٰ جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے طلال چوہدری کے خلاف توہینِ عدالت کے مقدمے کی سماعت کی۔

سماعت کے آغاز میں طلال چوہدری نے عدالت سے استدعا کی کہ عدالت درگزر سے کام لے مقدمہ شواہد ریکارڈ ہونے کی سطح پر بھی ختم کیا جاسکتا ہے۔

جسٹس گلزار احمد نے طلال چوہدری کے وکیل کامران مرتضیٰ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ دلائل دیں، ان کا مزید کہنا تھا کہ فردِ جرم عائد ہوچکی ہے اور تعزیرات پاکستان کی دفعہ 342 برائے سی آر پی سی کے تحت بیان قلمبند کیا جائے گا۔

طلال چوہدری کا کہنا تھا کہ میرے خلاف جو گواہ آئے میں نے انہیں سنا۔

یہ بھی پڑھیں: چیف جسٹس نے طلال چوہدری کی تقریر پر توہین عدالت کا نوٹس بھجوادیا

عدالت نے طلال چوہدری سے 21 جنوری اور 24 جنوری کو نشر ہونے والی تقاریر کے بارے میں استفسار کیا، جس پر طلال چوہدری کا کہنا تھا کہ وہ تقریر نہیں بلکہ پریس ٹاک تھی، جسے ایڈٹ کیا گیا میرے جملوں کو جان بوجھ کر غلط انداز میں پیش کیا گیا.

انہوں نے الزام عائد کیا کہ میرے بیان کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا اور میرے بیانات کو سیاق و سباق سے ہٹ کر نشر کیا گیا۔

طلال چودھری کا مزید کہنا تھا کہ جن توہین آمیز تقاریر کو ویڈیو ثبوت کے طور پر پیش کیا گیا وہ مکمل نہیں، مجھ پر لگائے گئے الزامات سے متعلق ویڈیو کلپ اور اسکرپٹ سے مطابقت نہیں رکھتے۔

جسٹس گلزار نے استفسار کیا کہ آپ نے بابا رحمت سے متعلق جو بات کہی کیا وہ آپ کے اپنے الفاظ ہیں جس پر طلال چاہدری نے عدالت کو بتایا کہ الفاظ میرے ہی ہیں لیکن پوری بات کو دیکھا جائے میں نے کوئی توہین عدالت نہیں کی، میں عدالت کی عزت کرتا ہوں، جو میں نے کہا ہوگا انشااللہ اس پر قائم رہوں گا۔

مزید پڑھیں: توہین عدالت کیس: طلال چوہدری کو وکیل کی خدمات حاصل کرنے کیلئے ایک ہفتے کی مہلت

جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے عدالت کی عزت کرتے ہیں تو اس معاملے کو دیکھ لیں گے۔

عدالت نے طلال چوہدری کو حکم دیا کہ آپ بھی اپنے شواہد اور گواہان پیش کریں، جس پر طلال چوہدری کا کہنا تھا کہ عدالت تحمل کا رویہ اپنائے، میں اور میری جماعت خاص حالات سے دوچار ہیں۔

جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا کہ یہ صرف آپ کا بیان ہے آپکی جماعت کا اس سے کوئی تعلق نہیں، توہین عدالت کا کیس ایسا فورم نہیں جہاں آپ تقریر کریں۔

یہ بھی پڑھیں: توہینِ عدالت کیس: طلال چوہدری پر آئندہ سماعت میں فرد جرم عائد ہونے کا امکان

مزید برآں طلال چوہدری نے عدالت میں دہائی دی کہ مجھ پر اس سے قبل توہین رسالت، غداری کے الزامات بھی لگائے گئے، میرے خلاف توہینِ عدالت کا مقدمہ ختم کیا جائے، میری تقاریر پر کبھی پیمرا یا کسی ادارے یا مخالف نے قانونی نوٹس نہیں دیا۔

اس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ آپ کے حکم پر بیان ریکارڈ نہیں کرینگے، شہادتیں قلمبند ہونگی تو آپ توہین رسالت سمیت دنیا کی باتیں کر لینا۔

طلال چوہدری کا عدالت میں گفتگو کے دوران مزید کہنا تھا کہ میں مفرور ملزم نہیں ہوں اس وقت الیکشن مہم چل رہی ہے اور میرے خلاف اسی بنیاد پر حلقے میں انتخابی مہم چلائی جا رہی ہے کہ مجھے سزا ہوگی، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ مجھے انصاف ملے گا۔

مزید پڑھیں: توہینِ عدالت کیس: طلال چوہدری پر فردِ جرم عائد

بعد ازاں جسٹس گلزار نے مطلع کیا کہ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 342 برائے سی آر پی سی آپ کابیان قلمبند ہوگیا اب بات ختم ہو چکی ہے.

جسٹس گلزار نے مقدمے کی کارروائی سمیٹتے ہوئے طلال چوہدری کو اپنے دفاع میں گواہان کی فہرست پیش کرنے کا حکم دیا اور ساتھ ہی اپنے دفاع میں شہادتیں پیش کرنے کی ہدایت کی۔

جس پر طلال چوہدری کے وکیل کامران مرتضیٰ نے درخواست کی کہ عدالت ہمیں مزید وقت دیا جائے، بعدِ ازاں عدالت نے توہینِ عدالت مقدمے کی سماعت 23 ایک بجے تک ملتوی کردی۔

مقدمے کا پس منظر

یاد رہے کہ طلال چوہدری نے گزشتہ ماہ مسلم لیگ (ن) کے جڑانوالہ میں جلسے کے دوران عوام سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'ایک وقت تھا جب کعبہ بتوں سے بھرا ہوا ہوتا تھا، آج ہماری عدالت جو ایک اعلیٰ ترین ریاستی ادارہ ہے میں پی سی او ججز کی بھرمار ہے'۔

انہوں نے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'میاں صاحب انہیں باہر پھینک دو، انہیں عدالت سے باہر پھینک دو، یہ انصاف نہیں دیں گے بلکہ اپنی نا انصافی جاری رکھیں گے'۔

خیال رہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار یکم فروری کو پاکستان مسلم لیگ (ن) کے وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری کو عدلیہ کے خلاف تقریر کرنے پر از خود نوٹس لیتے ہوئے توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا تھا۔

سپریم کورٹ نے 6 فروری 2018 کو طلال چوہدری کو شو کاز نوٹس جاری کرتے ہوئے انہیں ایک ہفتے میں وکیل کی خدمات حاصل کرنے کی مہلت دی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: توہین عدالت کیس: طلال چوہدری نے عبوری جواب سپریم کورٹ میں جمع کرادیا

طلال چوہدری نے 24 فروری کو سپریم کورٹ میں توہینِ عدالت کیس میں اپنا عبوری جواب جمع کرایا تھا۔

سپریم کورٹ نے 26 فروری کو وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری سے متعلق توہینِ عدالت ازخود نوٹس کیس میں وکیل کی عدم پیشی پر سماعت 6 مارچ تک ملتوی کردی تھی۔

عدالت عظمیٰ نے 6 مارچ کو ہونے والی سماعت میں ڈپٹی اٹارنی جنرل کو بیانات سے متعلق سی ڈی طلال چوہدری کو فراہم کرنے کی ہدایت کردی۔

14 مارچ کو ہونے والی سماعت کے دوران طلال چوہدری پر فردِ جرم عائد نہیں کی جاسکی تھی۔ بعد ازاں 15 مارچ کو ان پر توہین عدالت مقدمے میں فرد جرم عائد کردی گئی تھی۔