نقطہ نظر

نوزائیدہ بچوں کی بلند شرحِ اموات اور ہماری ذمہ داریاں

لڑکیوں اور خواتین کی صحت کو مزید عرصے تک نظر انداز کرنا ہماری قوم کے مستقبل کو خطرے میں ڈالنے کے برابر ہے۔
لکھاری کراچی کی آغا خان یونیورسٹی میں ریسرچ کے ایسوسی ایٹ ڈین اور امراضِ اطفال کے اسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔

فروری میں اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسیف کی جاری کردہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ پاکستان میں پیدا ہونے والے کسی بچے کا پہلے ہی ماہ میں انتقال کر جانے کا امکان جاپان، آئس لینڈ یا سنگاپور میں پیدا ہونے والے بچے کے مقابلے میں 50 گنا زیادہ ہے۔

پاکستان میں پیدا ہونے والے ہر 22 بچوں میں سے ایک پہلے ہی ماہ میں انتقال کر جاتا ہے، یعنی 1000 نوزائیدہ بچوں میں سے 46 بچے اپنی زندگی کا دوسرا ماہ نہیں دیکھ پاتے۔

اس کے مقابلے میں ہندوستان، جس کے سماجی و ثقافتی عوامل پاکستان جیسے ہی ہیں، وہاں بچوں کی اموات کی شرح پاکستان کے مقابلے میں کافی کم، یعنی 1000 میں سے صرف 25 ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں بچوں کی موت کی شرح صحت کا کمزور انفراسٹرکچر اور کمزور معیشتیں رکھنے والے کئی ملکوں سے زیادہ ہے۔

نوزائیدہ بچوں کی بلند شرحِ اموات کی وجہ خاص طور پر دورانِ حمل زچہ و بچہ کی صحت اور غذا کی خراب صورتحال ہے۔ پاکستان میں بچوں کا قد اور نشونما رک جانے کی شرح دنیا میں بلند ترین شرحوں میں سے ہے۔ یہ غذائی کمی کی علامت ہے۔ وہ بچیاں جو بچپن میں غذائی قلت کا شکار ہوتی ہیں، اس جسمانی عارضے کو درست کرنے کے کسی بحالی پروگرام سے گزرے بغیر بچوں کو جنم دیتی ہیں۔

اس سے حاملہ ماں اور نوزائیدہ بچے، اور نتیجتاً پورے گھرانے کے لیے سنگین نتائج پیدا ہوتے ہیں۔ غربت کی وجہ سے محدود وسائل اور حاملہ خواتین کی غذائی ضروریات کے متعلق عدم آگاہی کی وجہ سے حاملہ خواتین میں وزن کم بڑھتا ہے۔ چنانچہ غذائی قلت کی شکار خواتین ایسے بچوں کو جنم دیتی ہیں جو چھوٹے اور کمزور ہوتے ہیں، اور معمولی بیماریوں کی وجہ سے بھی موت کا امکان زیادہ بڑھ جاتا ہے۔

پڑھیے: پاکستان میں کم عمری کی شادیاں، وجوہات اور اُن کے نقصانات

نوزائیدہ بچوں کی بلند شرحِ اموات کی دوسری اہم وجہ زچگی کی خراب سہولیات یا ان کی عدم موجودگی ہے۔ گھر پر جنم دینے کے بجائے کسی طبی مرکز میں جنم دینا زیادہ محفوظ سمجھا جاتا ہے۔ مگر پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے (پی ڈی ایچ ایس) 2013-2012 کے مطابق پاکستان میں اب بھی تقریباً آدھی پیدائشیں گھر پر ہوتی ہیں۔

ہماری صرف 52 فیصد پیدائشوں میں ماہر برتھ اٹینڈینٹ (نرس، مڈوائف) وغیرہ کی سہولیات حاصل ہوتی ہیں جبکہ باقی پیدائشوں کی کوئی تربیت یافتہ نگرانی نہیں ہوتی۔ گھر کے اندر بچوں کی نگہداشت کی سہولیات نہایت محدود ہوتی ہیں جبکہ جان بچانے والی سہولیات گھروں میں عدم موجود جبکہ اچھے طبی مراکز میں موجود ہوتی ہیں۔ اس طرح کی اہم خدمات میں ماں اور بچے کی زندگی بچانے کے لیے سرجری وغیرہ شامل ہیں۔

پاکستان میں زچگی کی سہولیات فراہم کرنے والے طبی مراکز کے ساتھ بھی بڑے مسائل ہے۔ نجی شعبے کے زیادہ تر زچگی مراکز شہری علاقوں میں ہیں، اور ایسے کاروباری ماڈل پر کام کرتے ہیں جو کم پیچیدگی والے کیسز کی زیادہ تعداد کو ترجیح دیتا ہے۔ وہ زچگی کی پیچیدگیوں اور زچہ و بچہ کی اگلے درجوں کی نگہداشت پر زیادہ سرمایہ کاری نہیں کرتے۔ آخری منٹ پر سر اٹھانے والی کسی بھی پیچیدگی کی صورت میں وہ ماں اور بچے کو سرکاری ہسپتال کی جانب بھیج دیتے ہیں۔

مگر بہت کم سرکاری ہسپتال ایسے ہیں جو اس طرح کی پیچیدگیاں سنبھالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اور جن میں یہ سہولیات موجود ہیں، وہ پہلے ہی ان پیچیدہ اور فوری توجہ کے طلبگار کیسز کے دباؤ کا شکار ہیں جو نجی ہسپتال یا گھر پر زیرِ نگرانی یا بغیر نگرانی ہونے والی ڈلیوری کے دوران پیچیدگی کا شکار ہوجاتے ہیں۔

یہ دونوں عوامل اہم ہیں، مگر ان سے پھر بھی واضح نہیں ہوتا کہ پاکستان میں بچوں کی بلند شرحِ اموات یونیسیف کی فہرست میں موجود 10 دیگر ممالک سے بلند کیوں ہے؟ خاص طور پر پریشان کن حقیقت یہ ہے کہ یہ رپورٹ ایسے وقت پر آئی ہے، جب صوبائی طبی سرویز کے مطابق دیگر اشاریوں، مثلاً طبی مراکز میں ڈلیوریاں، ماہر کی زیرِ نگرانی پیدائش، اور سیزیرین سیکشن میں بتدریج بہتری آئی ہے، خاص طور پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں۔

مزید پڑھیے: ماؤں اور بچوں کے قاتل ہم

یونیسیف کے اندازے بظاہر 2006 اور 2013-2012 کے پی ڈی ایچ ایس سرویز میں سامنے آنے والے حقائق اور رجحانات پر مشتمل ہیں، اور ان دونوں سرویز کے درمیان بچے کی موت کی تعریف اور اس کی درجہ بندی کے حوالے سے چند بنیادی فرق موجود ہیں۔ ہمیں واضح طور پر زیادہ ٹھوس ڈیٹا کی ضرورت ہے تاکہ اس تعداد، اور بچوں کی اموات کی وجوہات کا اندازہ ضلعی سطح تک لگا سکیں۔

پاکستان میں ممکنہ طور پر دیگر اضافی عوامل بھی ہیں جن پر سائنسی تحقیق ہونی چاہیے، مثلاً کزن میرج، جس کی وجہ سے آنے والی نسلوں میں جینیاتی عوارض کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ 2013-2012 کے پی ڈی ایچ ایس کے مطابق پاکستان میں آدھی شادیاں کزنز کے درمیان ہوتی ہیں۔ پاکستان میں کزن میرج کی وجہ سے جینیاتی عوارض، اور ان کا نوزائیدہ بچوں اور ماؤں کی کُل اموات میں کتنا حصہ ہے، اس حوالے سے ڈیٹا دستیاب نہیں ہے۔

آگے بڑھیں، تو لگتا ہے کہ باقاعدہ تحقیق کے علاوہ وہ عوامل جو نوزائیدہ بچوں کی اموات میں کمی لا سکتے ہیں، وہ لڑکیوں اور خواتین کی عمومی اور غذائی صحت پر توجہ دینا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اسے اتنے ہم آہنگ انداز میں کیا جائے تاکہ کوئی لڑکی پیچھے نہ رہ جائے۔

ایسا یوں یقینی بنایا جا سکتا ہے کہ دودھ پینے کی عمر کے دوران یقینی بنایا جائے کہ کوئی بھی لڑکی غذائی قلت کا شکار نہ ہو، ہر بالغ لڑکی کو اس کی ضروریات کے مطابق غذائی وسائل فراہم کیے جائیں، بالخصوص حمل کی اضافی غذائی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے تاکہ اسے ایک کے بجائے دو لوگوں کی خوراک ملے، اور پیدائش کے بعد تاکہ وہ اپنے دودھ کے ذریعے اپنے بچے کو مناسب غذائیت اور بیماریوں سے تحفظ فراہم کر سکے۔

تمام پیدائشیں ایک ماہر اور تربیت یافتہ نرس یا مڈوائف کی زیرِ نگرانی ہونی چاہیئں۔ طبی مراکز میں جدید سہولیات فراہم کی جانی چاہیئں جبکہ خدمات کو عوام کے قریب لانا چاہیے، بجائے اس کے کہ لوگوں سے توقع کی جائے کہ وہ دردِ زہ یا پیچیدگی کی شکار خاتون، یا بیمار نوزائیدہ بچے کو بڑے شہروں کے بڑے سرکاری ہسپتال تک لائیں گے۔

پڑھیے: پاکستانی ہسپتال اور کتنی جانیں لیں گے؟

بچاؤ، فوری تشخیص، اور نوزائیدہ بچوں میں بیماریوں کا درست علاج، ہر چیز برابر طور پر ضروری ہے اور ان سب چیزوں کو خواتین کی صحت بہتر بنانے کی کوششوں کے متوازی اہمیت دینی چاہیے۔ بھلے ہی حکومت پر عوامی صحت کی بنیادی ذمہ داری عائد ہوتی ہے، مگر ڈویلپمنٹ سیکٹر، تعلیمی اداروں، اور سول سوسائٹی کو بھی خواتین اور لڑکیوں کی صحت کے اس مسئلے کو ترجیح دینی چاہیے۔ لڑکیوں اور خواتین کی صحت کو مزید عرصے تک نظر انداز کرنا ہماری قوم کے مستقبل کو خطرے میں ڈالنے کے برابر ہے۔

انگلش میں پڑھیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 21 مئی 2018 کو شائع ہوا.

اسد علی

لکھاری کراچی کی آغا خان یونیورسٹی میں ریسرچ کے ایسوسی ایٹ ڈین اور امراضِ اطفال کے اسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔

ان کا ای میل ایڈریس asad.ali@aku.edu ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔