لو آگئی میدان میں ’کھائو کماؤ پارٹی‘
ہمارے دوست بَنّے بھائی ہمیشہ سے کچھ نہ کچھ بناتے رہے ہیں۔ نوجوانی میں گلی محلے میں تعلق بناتے تھے، اس بنانے میں دل بھر کے بے وقوف بناتے تھے، کاروبار شروع کیا تو لوگوں کو اُلّو بنانے لگے، بارہا وقت پڑنے پر گدھے کو باپ بنا چکے ہیں، ضرورت پڑنے پر باپ کو ’ماموں‘ بناتے رہے ہیں۔
بس یہی کچھ بناتے رہ گئے اور خود کچھ بن نہ پائے۔ کبھی چپراسی کی نوکری کی، کبھی کسی دکان پر سیلزمین لگ گئے، جب کوئی نوکری گئی تو پان کا کیبن یا پرچون کی دکان کھول کر جمع پونجی گنواں دی۔ عرصے سے بے روزگار تھے اور باتیں ہی بنارہے تھے کہ ایک دن پتہ چلا انہوں نے ایک سیاسی جماعت بنا ڈالی ہے۔ ان کی جماعت کا نام ہے ’کھاؤ کماؤ پارٹی۔‘
ہم نے پوچھا بَنّے بھائی یہ سیاست میں آنے اور پارٹی بنانے کی کیا اور کیوں سوجھی؟ ماچس کی تیلی کان کی گہرائی میں گُھما کر میل نکالتے ہوئے بولے، ’آپ نے سمجھ کیا رکھا ہے اپنے بھائی کو، آپ کا بھائی دانش ور ہے، فلسفی ہے۔ میرے بھائی، میں پارٹی بناکر صرف میدان میں نہیں آرہا بلکہ ایک پورا سیاسی فلسفہ لارہا ہوں قسم سے‘، اور قسم کھا کر انہوں نے جن ناقابلِ اشاعت اور نفیس الطبع حضرات کے لیے ناقابلِ سماعت الفاظ کے ساتھ اپنے عزائم و ارادے ظاہر کیے وہ ہر سیاست دان کی دل کی آواز ہوتے ہیں، لیکن زبان پر کوئی نہیں لاتا۔
پڑھیے: مشرف کی ممتا اور روتا پاکستان
ہم نے جب ان کے سیاسی فلسفے کے بارے میں استفسار کیا تو لمبی سانس لی اور بولے، ’بھائی سیدھی سی بات ہے، سیاست دھندا ہے، تو صاف بولو دھندا کرنا ہے، یہ خدمت کی رٹ کاہے کی ہے؟‘ پھر سیدھے ہوکر بیٹھ گئے اور بڑا دانش ورانہ منہ بنا کر کہنے لگے،’آپ کا بھائی سیدھی سی بات کرتا ہے، میری پارٹی کو ووٹ دے کر اپنے بھائی کو حکومت بنانے اور دولت کمانے کا موقع دو۔ یہ ویسے ہی ہے جیسے بھکاری کہتا ہے امداد کرنا محتاج ہوں صاب۔ یہ اپنا وعدہ ہے کہ سچ بولیں گے، کتنا لگایا کتنا جیب میں گیا پورا حساب دیں گے۔ اسی لیے اپنی پارٹی کا نعرہ ہے ’جو کہیں گے وہ کریں گے، اور جو کریں گے وہی کہیں گے۔‘
اب ہماری سمجھ میں آیا کہ انہوں نے اپنی جماعت کا نام ’کھاؤ کماؤ پارٹی‘ کیوں رکھا ہے۔ ہم نے بَنّے بھائی سے ان کی جماعت کے آئین اور منشور کے نکات معلوم کیے تو دامن اٹھاکر شلوار کے سہارے پیٹ سے چپکا پلندا نکال کر ہمیں یہ کہہ کر تھما دیا، ’لو تم خود ہی پڑھ لو، اپنے پاس وقت کہاں ہے، بڑا بزی چل رہا ہوں آج کل۔‘
ہم نے مختلف سائز کے کاغذوں پر مشتمل وہ پلندا جس کا ہر کاغذ چائے یا پان کی پیک کے داغ سے مزین تھا سطر سطر پڑھ ڈالا۔ اس طومار سے جو کچھ برآمد ہوا، آپ کی خدمت میں پیش ہے:
یہ اپنا وعدہ ہے کہ سچ بولیں گے، کتنا لگایا کتنا جیب میں گیا پورا حساب دیں گے۔ اسی لیے اپنی پارٹی کا نعرہ ہے ’جو کہیں گے وہ کریں گے، اور جو کریں گے وہی کہیں گے۔‘
آئین کی رو سے جماعت کے صدر، بَنّے بھائی ہیں، جنرل سیکریٹری کے عہدے پر بھی بَنّے بھائی فائز ہیں اور فنانس سیکریٹری، سیکریٹری نشر و اشاعت سمیت جماعت کا پورا سیکریٹریٹ بَنّے بھائی ہی کی ذات ہے۔ عہدوں کے تذکرے کے بعد بریکٹ میں لکھا ہے، ’پیارے حیران ہونے کی کیا بات ہے، ہر پارٹی میں سربراہ ہی تو سب کچھ ہوتا ہے، پھر عہدے داروں کی بھیڑ لگانے سے فائدہ؟‘ آئین کی رو سے پارٹی میں باقاعدگی سے الیکشن ہوں گے، جن میں اتنی ہی باقاعدگی سے بَنّے بھائی کو صدر اور دیگر مرکزی عہدوں پر منتخب کیا جائے گا۔ صدر ہر فیصلہ مشاورت سے کرنے کا پابند ہوگا اور پارٹی کے تمام ارکان پر پابندی ہوگی کہ صدر جب بھی کہے مجھے ان الفاظ میں یہ مشورہ دو تو اسے بعینہ الفاظ میں وہی مشورہ دیں۔
اب آتے ہیں منشور کے نکات کی طرف:
ملک کا انتظام
ہماری حکومت دکھا کر اور بتاکر کھائے گی۔ کوئی بھی منصوبہ ہو اس کے بارے میں صاف صاف بتایا جائے گا کہ کتنا کھایا گیا کتنا لگایا گیا۔ وزارتیں ٹھیکے پر دی جائیں گی اور ہر وزیر اپنی کمائی کا 20 فیصد قومی خزانے اور 20 فیصد وزیرِاعظم کی جیب میں ڈالنے کا پابند ہوگا۔
پڑھیے: باتوں کے بھوت اور ان کی اقسام
معیشت
’کھاؤ کماؤ پارٹی‘ آزاد معیشت بلکہ مادر پدر آزاد معیشت پر یقین رکھتی ہے، چنانچہ اس کے دورِ حکومت میں ہر ایک کو آزادی ہوگی کہ جیسے چاہے کمائے۔ ملک کے مالی معاملات قرضے لے کر پورے کیے جائیں گے اور حکومت عالمی مالیاتی اداروں اور امیر ممالک کے ساتھ ساتھ تنزانیہ، افغانستان، یوگنڈا، روانڈا، ایتھوپیا اور ہیٹی جیسے غریب ممالک سے بھی قرضہ مانگنے سے دریغ نہیں کرے گی، کیونکہ ہم طبقاتی فرق پر یقین نہیں رکھتے۔ مسلم ممالک سے ہم قرض حَسنہ لیں گے اور مالیاتی اداروں، امریکا اور مغربی ملکوں سے ’قرضِ پھنسنا‘ جسے دے کر وہ ایسے پھنسیں گے کہ تقاضا ہی کرتے رہ جائیں گے۔
صحت
قوم ہم سے ایسی کوئی فضول توقع نہ رکھے کہ ہم اس کی صحت کا خیال رکھیں گے، ہم حکومت ہوں گے امّی جان نہیں کہ قوم کو گود میں بٹھا کر منہ کھول کھول کر دوائیاں پلاتے رہیں۔ بس اتنا کریں گے کہ ملک بھر میں ایک ایک کمرے کے صحت مراکز قائم کردیں گے، جو اندر سے خالی ہوں گے بس ان کی دیواروں پر بڑا بڑا لکھا ہوگا، ’اپنی صحت کا خیال خود رکھیے، کیونکہ وہ آپ کی صحت ہے حکومت کی نہیں، شکریہ۔‘
تعلیم
ہمارے نوجوان زیادہ پڑھ لکھ کر ملک چھوڑ جاتے ہیں، اس لیے اعلیٰ تعلیم کو جَڑ سے ختم کردیا جائے گا۔ جب کم پڑھے لکھے لوگ بھی ملک چلاسکتے ہیں تو زیادہ پڑھائی پر قومی دولت ضائع کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ اس لیے یونیورسٹیاں بند کرکے ان سب میں 10، 10 یا 15، 15 اسکول کھول دیے جائیں گے۔ اس طرح تعلیم عام ہوجائے گی۔ جامعات کی باقی بچنے والی زمین پر چائنا کٹنگ کردی جائے گی، اس طرح رہائش کا مسئلہ حل ہوجائے گا۔
امن و امان
چُن چُن کر جرائم پیشہ افراد اور شرپسند عناصر پولیس میں بھرتی کرلیے جائیں گے۔ اس طرح جرائم کی شرح گھٹ اور پولیس کی کمائی کی شرح بڑھ جائے گی۔ چنانچہ پولیس کو تنخواہ دینے کی ضرورت نہیں پڑے گی، یوں حکومت کو پولیس کی مفت کی نفری ہاتھ آئے گی اور قومی خزانے سے پولیس کی مد میں ہونے والے اخراجات ختم ہوجائیں گے۔
دفاع
جب حکومت میں آئیں گے تو پوچھ لیں گے۔
عثمان جامعی شاعر، قلم کار، مزاح نگار، بلاگر، صحافی ہیں۔ آپ کی تین کتابیں شائع ہوچکی ہیں، جن میں فکاہیہ مضامین کا مجموعہ ’کہے بغیر‘، شعری مجموعہ ’میں بس ایک دیوار‘ اور کراچی کے حوالے سے ناول ’سرسید، سینتالیس، سیکٹرانچارج‘ شامل ہیں۔ آپ اس وقت ایک اخبار میں بطور ’سنڈے میگزین‘ انچارج ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔