Election2018

اسفندیار ولی

صدر عوامی نیشنل پارٹی
عوامی نیشنل پارٹی

سینئر سیاستدان

تجزیہ کار علی ارقم کا تبصرہ

عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اور خان عبدالولی خان کے صاحبزادے اسفندیار ولی خان پاکستان کے گزشتہ سالوں کے بااثر ترین سیاستدانوں میں سے ہیں۔

انہوں نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کی بحالی میں مدد کی ہے۔ کہا جاسکتا ہے کہ یہ ان کی اور محمود خان اچکزئی کی کوششوں کی وجہ سے ہی تھا کہ 2014 میں افغان صدر دورہ پاکستان پر آئے جہاں وہ جی ایچ کیو بھی گئے۔

اسفند یار ولی کی پارٹی اپنی ہم عصر سیاسی پارٹیوں میں ایک منفرد سیاسی تنظیم ہے۔ اس کی ایسی خصوصیت جو کسی اور جماعت میں نہیں ہے، وہ یہ ہے کہ اس میں کوئی مرکزی شخصیت نہیں۔ ایک غیر مرکزی سیٹ اپ کی وجہ سے طاقتیں پارٹی عہدیداروں کو منتقل ہوجاتی ہیں جس کی وجہ سے وہ حالات کے مطابق فیصلے کرسکتے ہیں۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ ولی کا بظاہر کئی اہم فیصلوں سے زیادہ تعلق نہیں ہے، جیسے ایک سینیئر پارٹی لیڈر اپنے ہی صوبے میں قدامت پسندوں کا ووٹ حاصل کرنے کے لیے مدرسوں کی تعمیر اور تعمیرِ نو پر کروڑوں روپے خرچ کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ حمایت اللہ مایار، جو مشعال خان کے قاتلوں کے حامی بھی ہیں، انہیں مردان سے انتخابات لڑنے کی اجازت دی گئی ہے جبکہ پارٹی کی نائب صدر بشریٰ گوہر کو خواتین کی مخصوص نشستوں پر 4 نسبتاً غیر معروف امیدواروں کے بعد رکھا گیا ہے۔

ولی خود این اے 24 چارسدہ سے لڑ رہے ہیں جہاں انہیں جے یو آئی (ف) کے مولانا گوہر علی شاہ نے 2013 میں شکست دی تھی۔ وہ اب دوبارہ شاہ کے مدِ مقابل ہیں جو کہ اس دفعہ ایم ایم اے کے ٹکٹ سے لڑ رہے ہیں، جس کی وجہ سے اے این پی کے سربراہ کے لیے انہیں ہرانا مشکل ہوگیا ہے۔

ولی کے پاس عوام کو جلسوں تک لانے اور اے این پی کی مقبولیت بحال کرنے کی صلاحیت ہے مگر ان کی گرتی ہوئی صحت کی وجہ سے ان کے لیے اپنی اور پارٹی کی انتخابی مہم چلانا مشکل ہو رہا ہے، جسے اب آنے والے انتخابات میں ایم ایم اے اور پی ٹی آئی کا سامنا ہے۔

اہم معاملات پر موقف