Election2018

فضل الرحمٰن

امیر جمعیت علماء اسلام (ف)
قائد جمعیت علماء اسلام (ف)

اتحاد ساز

تجزیہ کار زیغم خان کا تجزیہ

فضل الرحمٰن پاکستانی سیاست کی سب سے زیادہ پیچیدہ اور دلچسپ شخصیات میں سے ایک ہیں۔

انہوں نے اپنے والد مولانا مفتی محمود کی وفات کے بعد محض 27 برس کی عمر میں 1980ء میں جمعیت علمائے اسلام کے جنرل سیکریٹری کا عہدہ سنبھالا۔

نوجوان رہنما نے دیوبند مکتب فکر کے مولاناؤں پر چالاکی کے ساتھ غلبہ پالیا اور 1980ء کی دہائی سے کسی چیلنج کا مقابلہ کیے بغیر دیوبند مکتبہ فکر کے سب سے بڑے دھڑے جمعیت علمائے اسلام (ف) کی سربراہی کرتے آرہے ہیں۔

1990ء کی دہائی سے 2 بڑی مذہبی جماعتوں، جمعیت علمائے پاکستان اور جماعت اسلامی نے اپنے عروج کو زوال کی جانب گامزن اور اپنے ووٹ بینک کو ٹوٹتا دیکھا کیونکہ کراچی میں ان کا ووٹ بینک متحدہ قومی موومنٹ نے توڑا تو پنجاب اور کسی حد تک خیبرپختونخوا میں پاکستان مسلم لیگ ن نے توڑا تھا۔

مگر فضل الرحمٰن یکے بعد دیگرے اقتدار میں آنے والی حکومتوں کے ساتھ اتحاد قائم کرتے رہے اور کٹھن حالات پر سبقت پانے میں کامیاب رہے۔ یوں اتحاد قائم کرنے کی وجہ سے انہیں اپنے زیرِ اثر علاقوں میں سرپرستانہ جال کو قائم رکھنے میں مدد ملتی ہے۔

مشرف دور میں فضل الرحمٰن نے اپنی طاقت کا عروج دیکھا، کیونکہ جہاں وہ خود قومی اسمبلی میں خود قائد حزبِ اختلاف رہے وہیں پختونخواہ میں قائم متحدہ مجلس عمل کی حکومت میں وزیر اعلیٰ بھی ان کی اپنی جماعت سے ہی بنا تھا۔

مگر اس وقت جمعیت علمائے اسلام (ف) کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی صورت میں ایک بڑے خطرے کا سامنا ہے۔ عمران خان کئی نوجوان ووٹرز کو جمعیت علمائے اسلام (ف) کے اثر سے نکال کر پی ٹی آئی کی طرف مائل کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔

انتخابات کے بعد اگر معجزاتی طور پر مسلم لیگ (ن) حکومت تشکیل دیتی ہے تو غالب امکان یہی ہے کہ فضل الرحمٰن حکومت کے اتحادی بن جائیں گے، تاہم جمعیت علمائے اسلام (ف) کے لیے پی ٹی آئی کی حکومت کے ساتھ اتحاد کرنا مشکل ہوگا۔ لہٰذا ایسی صورتحال میں ہم ایک طویل عرصے کے بعد مولانا کو اقتدار سے باہر دیکھ سکتے ہیں۔

مگر حزبِ اختلاف میں ان کی موجودگی ایک خطرناک مخالف کی موجودگی سے کم نہیں ہوسکتی۔ ممکن ہے ان کے ذہن میں چند ایسے فیصلے ہوں جن سے وہ آئندہ چند مہینوں میں ہمیں حیران کردیں۔

اہم معاملات پر موقف