جمشید دستی
عوامی راج پارٹی
تجزیہ کار عدنان رسول کا تبصرہ:
ایک الیکٹیبل
جمشید دستی نے اپنا کریئر پاکستان پیپلز پارٹی سے شروع کیا اور پھر کچھ وقت کے لیے پاکستان مسلم لیگ نواز میں چلے گئے، اور پھر انہوں نے مظفر گڑھ سے اپنی اکلوتی نشست پر آزاد امیدوار کی حیثیت میں لڑنا پسند کیا۔
گزشتہ آٹھ سالوں میں وہ نااہل ہوئے، گرفتار ہوئے، اور پھر ان کی سزائیں بالآخر کالعدم قرار دے دی گئیں۔
اور اب 2018 میں وہ انہیں حلقوں سے مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں جہاں انہوں نے خود کو جدید دور کے رابن ہوڈ اور سنجے دت کی بولی وڈ فلم واستَو کے ملغوبے کے طور پر پیش کر رکھا ہے۔
مگر جمشید دستی کی صورت میں ہمارے پاس اس بات کی ممکنہ طور پر بہترین مثال ہے کہ الیکٹیبل ہونا کیا ہوتا ہے۔
وہ مظفرگڑھ اور اس کی مقامی سیاست میں گہری جڑیں رکھتے ہیں۔ وہ حکومت میں رہتے ہوئے اپنے علاقے میں فنڈز لے کر آئے، جس سے مقامی لوگوں کو معلوم ہوگیا کہ صرف ایک ہی شخص ان کے کام کر سکتا ہے۔
یہ الیکٹیبل کے لیے بنیادی ضرورت ہے، یعنی ان کا ذاتی کردار یا قانون سازی کی ان کی صلاحیت شاید ہی انہیں منتخب کروانے میں کوئی کردار ادا کرتی ہو۔
بات آ کر یہاں ختم ہوتی ہے کہ کیا انہوں نے انتخابات جیتنے کے لیے برادریوں اور مقامی گروہوں سے اچھے تعلقات قائم کیے ہیں یا نہیں۔
جمشید دستی کی ایک نشست کا شاید اس بات پر کوئی اثر نہ ہو کہ کون اقتدار میں آتا ہے، مگر جو بھی اقتدار میں آئے گا، وہ نشستوں کی تعداد بڑھانے کے لیے ان کی ایک نشست پر بھروسہ ضرور کر سکتا ہے۔
اہم معاملات پر موقف:
جمشید دستی عوام کو انصاف کی بروقت رسائی کے شدید حامی ہیں۔ نیو یارک ٹائمز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا تھا کہ ’اگر آپ عوام کو انصاف نہیں دیں گے تو اس سے دہشت گردی بڑھے گی اور خونی انقلاب کے لیے راہ ہموار ہوگی‘۔
سربراہ عوامی راج پارٹی امیر حکمرانوں سے نفرت، جاگیردارانہ نظام کے خلاف توانا آواز ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ’انہیں میرا رویہ پسند نہیں ہے اور مجھے ان کا‘
جمشید دستی نے ملک کی بڑی صنعتوں کو قومیانے کا مطالبہ بھی کیا، ان کے خلاف عدالتوں میں کم از کم 25 مقدمات زیر سماعت ہیں۔
2010 میں ضمنی انتخاب جیتنے اگلے ماہ ایک عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ ’یہ ایک الیکشن نہیں تھا، یہ غریب عوام اور طاقتور طبقے کے درمیان جنگ تھی‘۔
جمشید دستی کے حوالے سے یہ بات بھی مشہور ہے کہ انہوں نے مختاراں مائی پر دباؤ ڈالا تھا کہ وہ اپنی عصمت دری کرنے والوں کے خلاف مقدمہ واپس لے لیں۔