بلاول بھٹو زرداری
پاکستان پیپلز پارٹی
بلاول کی پہلی بار
تجزیہ کار سہیل سانگی کا تبصرہ
بلاول 2012 میں جب سے پارٹی سربراہ بنے، تب سے وہ اپنی تقاریر میں اس بات کا اعادہ کرتے رہے ہیں کہ ان کی جماعت ایک ترقی پسند جماعت ہے، وہ باقاعدگی سے غریبوں کی خدمت کے اپنی والدہ کے مشن کو آگے بڑھانے کی بات کرتے ہیں۔
بھٹو کے حامی اور پی پی پی کے ووٹرز نے بلاول کو ایک نئے ستارے کے طور پر لیا ہے اور ان سے امیدیں باندھ لی ہیں کہ بلاول کا براہِ راست ان سے تعلق ہوگا اور وہ عوامی سرگرمیوں میں شامل ہوجائیں گے، لوگوں کو یہ بھی امید بندھ گئی تھی کہ وہ خود کو پارٹی کے ‘انکلوں’ سے آزاد کروا کر اپنی والدہ کی طرح اپنی ٹیم خود بنائیں گے۔
بلاول نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ان کا اپنی جماعت میں زیادہ بڑا کردار ہوگا، مگر یہ معجزہ بھی ابھی تک نہیں ہوا نہیں، اپنی گفتگو میں وہ بے باک، ترقی پسند اور عوام دوست نظر آتے ہیں، مگر مجھے معلوم ہوا ہے کہ انہیں اندرونی تنازع کا سامنا ہے کہ آیا اپنے نانا اور اپنی والدہ کے سیاسی ورثے کو آگے بڑھایا جائے، یا پھر اپنے والد کی طرح عملیت پسند سیاست کی جائے، بلاول ابھی بھی اپنے والد کے سیاسی سائے سے باہر نہیں نکلے ہیں اور شاید وہ نکلنا بھی نہیں چاہتے۔
تو کیا وہ صرف نام کے پارٹی سربراہ ہیں جبکہ سارے فیصلے ان کے والد کے ہوتے ہیں؟
ابھی تک ایک خودمختار رہنما کے طور پر نہ ابھر سکنے والے بلاول کے بحیثیت چیئرمین 6 سال بعد بھی کوئی ذاتی پیروکار نہیں ہیں، ان کے پاس جو بھی کچھ ہے، وہ ان کی والدہ اور ان کے نانا کی وجہ سے ہے۔
ذاتی تجربے کی کمی اور پارٹی امیدواروں کی نامزدگی میں کوئی رائے نہ ہونے کی وجہ سے وہ انتخابات کے بعد کے منظرنامے میں کوئی بھی معنی خیز کردار ادا نہیں کر پائیں گے۔
چونکہ ایک معلق پارلیمنٹ کی توقع کی جا رہی ہے، اس لیے بعد از انتخابات کے منظرنامے میں جوڑ توڑ کی ضرورت پڑے گی، جو کہ ان کے والد کا شعبہ ہے۔
یہ پہلی دفعہ ہوگا کہ بلاول کو پارلیمانی سیاست میں داخلے کا موقع ملے گا، اگر پی پی پی حزبِ اختلاف میں بیٹھنے کا فیصلہ کرتی ہے، تو ان کے پاس تجربہ اور سیاسی بلوغت حاصل کرنے کا ایک اچھا موقع ہوگا۔
ان کے مخالفین انہیں پی پی پی کا ’پوسٹر بوائے‘ کہتے ہیں، جس کے پاس اپنے دعووں کے ثبوت کے طور پر کچھ بھی نہیں ہے، وہ کہتے ہیں کہ بلاول اچھا بولتے ہیں، مگر کیا وہ اپنے دعووں پر عمل کریں گے؟
اہم معاملات پر مؤقف
بلاول خود کو جمہوریت اور اپنی پارٹی کے سوشلسٹ اصول کا پکا حامی قرار دیتے ہیں، چیئرمین پیپلز پارٹی مقرر ہونے کے بعد بلاول نے ایک نیوز کانفرنس میں بتایا تھا کہ میری والدہ کہتی تھیں کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے، انہوں نے کہا تھا کہ ان کی بحیثیت چیئرمین مقرر ہونے کے بعد ان کی جماعت کی جمہوریت کے لیے طویل اور تاریخی جدوجہد ایک نئے ولولے کے ساتھ جاری رہے گی۔
نوجوان سیاستدان عدالتی سرگرمی کے خلاف ہیں اور کہتے ہیں کہ سیاست کو عدالت کی نذر کرنا جمہوریت کے لیے اچھا نہیں ہے، کچھ عرصہ قبل صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جوڈیشل ایکٹیویزم کو کم ہونا چاہیے، عدالتوں کو اپنا کام کرنا چاہیے اور سیاستدانوں کو اپنا کام کرنے دینا چاہیے، اگر ہم (سیاستدان) برے ہیں یا ناکام ہو چکے ہیں، تو عوام کے پاس ہمیں ووٹ کے ذریعے مسترد کر دینے کا اختیار موجود ہے۔
بلاول پاکستان اور ہندوستان کے درمیان امن کے حامی ہیں اور دو طرفہ مذاکرات پر زور دے چکے ہیں، جنوری 2018 میں ایک ہندوستانی ٹی وی کو انٹرویو میں انہوں نے کہا تھا کہ دونوں جانب موجود عناد اور جائز شکایات کے باوجود ان ممالک کے نوجوان حتمی طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ امن ہی واحد حل ہے، ہمیں صرف وہاں تک پہنچنے کا راستہ تلاش کرنا ہوگا۔
بلاول پاکستان کی مذہبی اقلیتوں کے حقوق کے بھی بڑے حامی ہیں، انہوں نے پنجاب کے اس وقت کے گورنر سلمان تاثیر کے قتل کے بعد ملک کی اقلیتی برادریوں کے تحفظ کے عزم کا اظہار کیا تھا، تاثیر کو توہینِ مذہب کے قانون کے تحت سزائے موت پانے والی مسیحی خاتون کے دفاع میں بولنے پر انہی کے محافظ ممتاز قادری نے قتل کر دیا تھا۔
نوجوان سیاست دان، جو اپنی والدہ کے قتل کے بعد سیاسی منظرنامے پر سامنے آئے، اس بات پر زور دیتے ہیں کہ موروثی سیاست پی پی پی پر ان کے نانا ذوالفقار علی بھٹو اور والدہ بینظیر بھٹو کی اموات کے ذریعے تھوپی گئی ہے۔
وہ سابق فوجی حکمراں جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو اپنی والدہ کے قتل میں ملوث قرار دیتے ہیں، ایک موقع پر انہوں نے روتے ہوئے کہا تھا کہ “قاتل، قاتل، مشرف قاتل”
بلاول کہتے ہیں کہ انتخابات 2018 میں پیپلز پارٹی اپنے اصلی نعرے یعنی “روٹی، کپڑا اور مکان” کے تحت ہی اتری ہے۔