Election2018

بلاول بھٹو زرداری

چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی
پاکستان پیپلز پارٹی

بلاول کی پہلی بار

تجزیہ کار سہیل سانگی کا تبصرہ

بلاول 2012 میں جب سے پارٹی سربراہ بنے، تب سے وہ اپنی تقاریر میں اس بات کا اعادہ کرتے رہے ہیں کہ ان کی جماعت ایک ترقی پسند جماعت ہے، وہ باقاعدگی سے غریبوں کی خدمت کے اپنی والدہ کے مشن کو آگے بڑھانے کی بات کرتے ہیں۔

بھٹو کے حامی اور پی پی پی کے ووٹرز نے بلاول کو ایک نئے ستارے کے طور پر لیا ہے اور ان سے امیدیں باندھ لی ہیں کہ بلاول کا براہِ راست ان سے تعلق ہوگا اور وہ عوامی سرگرمیوں میں شامل ہوجائیں گے، لوگوں کو یہ بھی امید بندھ گئی تھی کہ وہ خود کو پارٹی کے ‘انکلوں’ سے آزاد کروا کر اپنی والدہ کی طرح اپنی ٹیم خود بنائیں گے۔

بلاول نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ان کا اپنی جماعت میں زیادہ بڑا کردار ہوگا، مگر یہ معجزہ بھی ابھی تک نہیں ہوا نہیں، اپنی گفتگو میں وہ بے باک، ترقی پسند اور عوام دوست نظر آتے ہیں، مگر مجھے معلوم ہوا ہے کہ انہیں اندرونی تنازع کا سامنا ہے کہ آیا اپنے نانا اور اپنی والدہ کے سیاسی ورثے کو آگے بڑھایا جائے، یا پھر اپنے والد کی طرح عملیت پسند سیاست کی جائے، بلاول ابھی بھی اپنے والد کے سیاسی سائے سے باہر نہیں نکلے ہیں اور شاید وہ نکلنا بھی نہیں چاہتے۔

تو کیا وہ صرف نام کے پارٹی سربراہ ہیں جبکہ سارے فیصلے ان کے والد کے ہوتے ہیں؟

ابھی تک ایک خودمختار رہنما کے طور پر نہ ابھر سکنے والے بلاول کے بحیثیت چیئرمین 6 سال بعد بھی کوئی ذاتی پیروکار نہیں ہیں، ان کے پاس جو بھی کچھ ہے، وہ ان کی والدہ اور ان کے نانا کی وجہ سے ہے۔

ذاتی تجربے کی کمی اور پارٹی امیدواروں کی نامزدگی میں کوئی رائے نہ ہونے کی وجہ سے وہ انتخابات کے بعد کے منظرنامے میں کوئی بھی معنی خیز کردار ادا نہیں کر پائیں گے۔

چونکہ ایک معلق پارلیمنٹ کی توقع کی جا رہی ہے، اس لیے بعد از انتخابات کے منظرنامے میں جوڑ توڑ کی ضرورت پڑے گی، جو کہ ان کے والد کا شعبہ ہے۔

یہ پہلی دفعہ ہوگا کہ بلاول کو پارلیمانی سیاست میں داخلے کا موقع ملے گا، اگر پی پی پی حزبِ اختلاف میں بیٹھنے کا فیصلہ کرتی ہے، تو ان کے پاس تجربہ اور سیاسی بلوغت حاصل کرنے کا ایک اچھا موقع ہوگا۔

ان کے مخالفین انہیں پی پی پی کا ’پوسٹر بوائے‘ کہتے ہیں، جس کے پاس اپنے دعووں کے ثبوت کے طور پر کچھ بھی نہیں ہے، وہ کہتے ہیں کہ بلاول اچھا بولتے ہیں، مگر کیا وہ اپنے دعووں پر عمل کریں گے؟

اہم معاملات پر مؤقف