امریکی سفارتخانے کی مقبوضہ بیت المقدس منتقلی اوراس کے ممکنہ اثرات
سوال یہ ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی سفارتحانے کو مقبوضہ بیت المقدس منتقل کرنے کا اعلان ایسے موقعے پر ہی کیوں کیا کہ جب فلسطینی تنازع کو 70 سال اور ارضِ فلسطین پر برطانوی قبضے کو 100 سال مکمل ہوئے؟
شاید اس کا جواب یہ ہے کہ مقبوضہ بیت المقدس میں امریکی سفارتخانے کی نصف اراضی مشرقی بیت المقدس پر مشتمل ہے، یعنی یہ زمین کے اس حصے پر قائم ہوا ہے جو مستقبل میں قیامِ امن کے بعد عالمی قوانین کے تحت فلسطینی ریاست کا دارالحکومتی علاقہ ہوگا۔
فلسطینی صدر محمود عباس نے امریکی صدر کے اس فیصلے کو فلسطینیوں اور عرب دنیا کے چہرے پر تھپڑ سے تعبیر کیا ہے۔ اگرچہ نئے تحریر شدہ عالمی ضابطوں میں تشدد کی کوئی بھی صورت جائز نہیں ہے اور مغربی دنیا نے تحریکِ آزادی اور دہشت گردی کا فرق محکوم مسلم خطوں میں تو عملاََ ختم کردیا ہے، پھر بھی اس نام نہاد تاریخی دن کے موقعے پر غزہ کی سرحد پر فلسطینی مظاہرین کے قتلِ عام کی ذمہ داری اسرائیل کی قابض حکومت کے ساتھ ہر ہر لحاظ سے امریکی صدر اور انتظامیہ پر عائد ہوتی ہے۔