ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت آخری مراحل میں داخل
اسلام آباد: عدالت کی جانب سے ملزمان کو سوالنامہ بھیجے جانے کے فیصلے کے ساتھ ہی احتساب عدالت میں شریف خاندان کے خلاف جاری ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت آخری مراحل میں داخل ہوگئی۔
عدالت نے کرمنل پروسیجر کوڈ (سی ای آر پی سی) کی دفعہ 342 کے تحت یہ فیصلہ کیا، جس میں ملزمان کو حتمی فیصلہ سنائے جانے سے قبل اپنی صفائی پیش کرنے کا موقع دیا جاتا ہے۔
اس ضمن میں احتساب عدالت کے جج محمد بشیر، نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن محمد صفدر کے بیانات حاصل کرنے کے لیے مذکورہ دفعہ کے تحت سوال نامہ ترتیب دیں گے۔
یہ بھی پڑھیں: واجد ضیاء نے احتساب عدالت میں نوازشریف کےخلاف دستاویزات پیش کردیں
اس سلسلے میں قومی احتساب بیورو (نیب) کے استغاثہ کے سربراہ سردار مظفر عباسی نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ ’کیونکہ استغاثہ کی جانب سے تمام گواہان پیش کر کے جرح کی جاچکی ہے اس لیے اب سی آر پی سی کی دفعہ 342 کے تحت کارروائی ہونی چاہیے‘۔
تاہم شریف خاندان کے وکلا نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے اس بات پر اصرار کیا کہ عدالت کی جانب سے مذکورہ کارروائی دیگر 2 ریفرنسز، العزیزیہ اور فیلگ شپ انویسمنٹ میں بھی استغاثہ کے گواہان کے بیانات حاصل کرنے کے بعد کی جائے۔
بعدازاں نواز شریف کے وکلا نے تینوں ریفرنسز کی اکھٹا سماعت کرنے اور اس کے تحت مشترکہ فیصلے کے لیے دی جانے والی درخواست کی جانب توجہ دلائی جسے اسلام آباد ہائی کورٹ نے 4 دسمبر 2017 کو رد کردیا تھا۔
مزید پڑھیں: ایون فیلڈ ریفرنس: نیب کے گواہ واجد ضیاء پر سخت جرح کا سلسلہ جاری رہا
درخواست میں نواز شریف کے وکلا کی جانب سے ان خدشات کا اظہارکیا گیا تھا کہ تینوں ریفرنسز میں گواہان کے الگ الگ بیانات لینے اور ان پر جرح کیے جانے سے ہمارا دفاع کمزور پڑ جائے گا۔
ان خدشات پر اسلام آباد ہائی کورٹ بینچ نے درخواست گزار کو تینوں مقدمات میں استغاثہ کے گواہان کی مشترکہ جرح کے لیے علیحدہ سے درخواست دینے کی ہدایت کی تھی۔
ادھر استغاثہ کے اہم گواہ واجد ضیا جو پاناما کیس میں جے آئی ٹی کے سربراہ تھے، نے العزیزیہ یا ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ ریفرنس میں اپنا بیان ریکارڈ کرادیا۔
واجد ضیا نے اپنی گواہی میں کہا کہ سال 2010 سے 2015 تک ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ کی کل آمدنی 99 لاکھ ڈالر تھی جس میں حسین نواز نے 89 لاکھ ڈالر نواز شریف کو بطور تحفہ دیئے جو ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ کے منافع کا 88 فیصد حصہ تھا۔
یہ بھی پڑھیں: ایون فیلڈ ریفرنس: نوازشریف کے خلاف نئے ثبوت ریکارڈ کا حصہ بنانے کی درخواست
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ کے نمایاں بنیفیشل اونر نواز شریف تھے جو بظاہر حسین نواز کی ملکیت تھی۔
واجد ضیا نے عدالت میں موقف اختیار کیا کہ جے آئی ٹی نے حسین نواز سے اتنی بڑی رقم بطور تحفہ دینے کی اہلیت جاننے کے لیے مالیاتی رسیدیں اور دیگر دستاویزات، جن میں شراکت داری کے معاہدے اور قرضہ جات کی تفصیل شامل تھی، پیش کرنے کا کہا لیکن انہوں نے پیش نہیں کیں۔
جس سے جے آئی ٹی اس نتیجے پر پہنچی کہ ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ اس پوزیشن میں تھی ہی نہیں کہ اتنی بھاری مالیت کی رقم کسی کو بطور تحفہ دی جاسکے اسی لیے حسین نواز دستاویزات چھپا رہے ہیں۔
واجد ضیا نے مزید کہا کہ حسین نواز کی جانب سے 2010 میں اپنے والد کو بطور تحفہ دی گئی رقم اور منافع اور نقصان کی شرح میں ربط نہیں پایا گیا، انکا کہنا تھا کہ 2010 میں ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ نے 5 لاکھ 88 ہزار ڈالر کا منافع کمایا جبکہ اسی سال حسین نواز نے اپنے والد کو 15 لاکھ ڈالر دیئے۔
مزید پڑھیں: ایون فیلڈ ریفرنس: نوازشریف کی متفرق درخواست پر فیصلہ محفوظ
واجد ضیا نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ 2015 میں ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ کو 15 لاکھ ڈالر کا نقصان ہوا جبکہ اسی سال حسین نواز نے اپنے والد کو 21 لاکھ ڈالر بطور تحفہ دیئے۔
واضح رہے کہ حسن نواز نے بھی جے آئی ٹی کے سامنے بیان دیا تھا کہ انہوں نے حسین نواز سے 8 لاکھ پاؤنڈز وصول کیے تھے اور اعتراف کیا تھا کہ مذکورہ رقم کو دستاویزات سے ثابت کرنا ممکن نہیں۔
یہ خبر ڈان اخبار میں 16 مئی 2018 کو شائع ہوئی