سانحہ 12 مئی: میئر کراچی سمیت دیگر ملزمان پر فرد جرم عائد
کراچی کی انسداد دہشت گردی عدالت نے سانحہ 12 مئی 2007 کو شارع فیصل پر جلاؤ گھیراؤ اور سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کا راستہ روکنے کے مقدمات کی سماعت کے دوران میئر کراچی اور متحدہ قومی موومنٹ (پاکستان) کے رہنما وسیم اختر سمیت دیگر ملزمان پر فرد جرم عائد کردی گئی۔
عدالت نے ملزمان پر فرد جرم عائد کرتے ہوئے آئندہ سماعت پر کیس کے گواہان کو طلب کرلیا۔
کراچی کی انسداد دہشتگردی کی خصوصی عدالت میں سانحہ 12 مئی کے مقدمات کی سماعت ہوئی جہاں میئر کراچی وسیم اختر سمیت دیگر ملزمان پیش ہوئے۔
مزید پڑھیں: سانحہ 12 مئی کیس: مفرور 16 ملزمان کی گرفتاری کیلئے اشتہار
ملزمان پر 12 مئی 2007 کو شارع فیصل پر جلاؤ گھیراؤ اور سابق چیف جسٹس کا راستہ روکنے سے متعلق دائر ایک مقدمے میں فرد جرم عائد کی گئی تاہم تمام ملزمان نے صحت جرم سے انکار کردیا۔
عدالت نے آئندہ سماعت پر کیس کے مزید گواہان کو طلب کرلیا۔
دیگر مقدمات میں وکلا کی عدم حاضری کے باعث ملزمان پر فرد جرم عائد نہ ہوسکی۔
بعد ازاں عدالت نے کیس کی مزید سماعت کو 23 جون تک کے لیے ملتوی کردیا۔
سماعت کہ بعد مئیر کراچی وسیم اختر نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ میرے نامزد ہونے کہ بعد مجھ پر 40 مقدمات ڈالے گئے اور ایک ہی دن میں 20، 20 ایف آئی آرز درج کی گئیں تھیں۔
یہ بھی پڑھیں: سانحہ 12 مئی : وسیم اختر کا اعترافی بیان متنازع ہوگیا
خیال رہے کہ 21 جنوری کو سانحہ 12 مئی سے متعلق مقدمے میں مفرور ملزمان کو اشتہاری قرار دینے کی کارروائی شروع کرتے ہوئے 16 افراد کی گرفتاری کے لیے اخبار میں اشتہار دیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ سانحہ کے مقدمات میں میئر کراچی وسیم اختر سمیت کچھ ملزمان نے ضمانت لے رکھی ہے، تاہم ان 16 ملزمان نے عدالت سے کسی طور پر بھی رجوع نہیں کیا۔
12 مئی 2007 کو پیش آنے والا واقعہ
یاد رہے کہ آج سے قریباً 11 سال قبل 12 مئی 2007 کے روز جب اس وقت کی وکلا تحریک عروج پر تھی تو معزول چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی کراچی آمد کے موقع پر ان کے استقبال کے لیے آنے والے سیاسی کارکنوں پر نامعلوم افراد نے گولیاں برسا دی تھیں۔
واضح رہے کہ شہر میں کشیدگی کا آغاز اس وقت ہوا تھا جب غیر فعال چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سندھ ہائی کورٹ بار سے خطاب کرنے کے لیے کراچی پہنچے تھے۔
مزید پڑھیں: سانحہ 12 مئی: ملک بھر میں وکلا کا یوم سیاہ
تاہم اس وقت کی انتظامیہ نے انہیں کراچی ایئرپورٹ سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں دی تھی۔
اس روز کراچی کے مختلف علاقوں میں کشیدگی کے دوران وکلا سمیت 50 سے زائد افراد ہلاک ہوگئے تھے۔