ماں بنی تو ماں کی قدر نہ کرنے کا پچھتاوا ستانے لگا
ماں جو میری دوست بھی ہے اور ہم راز بھی۔ محسن بھی ہے اور ناقد بھی۔
میرے وجود کی ابتداء سے ظہور کے ارتقاء تک ایک ماں ہی کا ساتھ تو تھا جو میرے ہونے کا سبب بنا۔
اس کے رت جگے میری نیند سے عبارت رہے، اس کا خون جگر، میری رگوں میں زندگی بن کر دوڑتا رہا۔ وہ ماں ہی تو تھی جس نے میری قلقاریوں کو معنی پہنائے، میری لڑکھڑاہٹ کو چال اور میرے بھولپن کو شعور کی دہلیز تک انگلی پکڑ کر چلنا سکھایا۔ میرے ناتواں اور کمزور جسم کو اپنے شانوں پر سہارے دیتی اور مضبوط بناتی۔
لیکن پھر میں بڑی اور سب کچھ سمجھنے والی ہوگئی، اور جس ماں نے میرے لیے اپنا سب کچھ قربان کردیا وہی ماں مجھے سن جوانی تک پہنچتے پہنچتے اپنی خوشیوں کی دشمن اولین لگنے لگی۔ لیکن وہ تو نتائج سے بے پرواہ ہوکر دیوانہ وار خدمت پر یقین رکھتی ہے، اس لیے ہر بات پر روک ٹوک، ہر قدم پر پہرہ سے متعلق میرے شکووں اور میری تمام تر بے رخی اور خفگی کے باوجود وہ مجھے زمانے کے سرد و گرم سمجھاتی رہی، اونچ نیچ دکھاتی رہی، لیکن میں بات سمجھنے کے بجائے ہمہ وقت کڑہتی رہی، لڑتی رہی کہ ’ماں کا آخر مسئلہ کیا ہے؟ انہیں میرے جذبات کا احساس کیوں نہیں؟‘
میں اکثر جراح کرتی تا وقتیکہ میں خود ماں بن گئی۔
سچ تو یہ ہے کہ میں ہرگز ہرگز لائق و فرمانبردار اولاد نہ تھی۔
ایک حسین، گھریلو اور سلیقہ مند ماں کی ایک باغی، مہم جو اور پڑھاکو بیٹی، جس کے آئیڈیل اس کے والد تھے۔ ماں کے مقابلے میں، میں نے اکثر اپنے والد کو اہمیت دی۔ اسکول سے کالج، کالج سے یونیورسٹی اور بعد ازاں پیشہ ورانہ زندگی میں بھی میں نے اپنے ابو کو اپنی کامیابی کا منبع اور مہمیز سمجھا اور انہی کی تقلید کی جنہوں نے میرے خوابوں کے آگے زمانے کے رسم و رواج اور حدود و قیود کو پیچ جانا۔
رات گئے کبھی کبھار امتحانات کی تیاری کرتے ہوئے، ابو کے ہاتھ کی گرما گرم چائے اور اول نوکری کی پہلی صبح ان کے ہاتھ کے بنے ناشتے کا ذائقہ اور لطف دل و زبان پر گویا ثبت ہوگیا ہے۔ ایسے میں ماں کے ہاتھوں سے کھائے ان گنت لقمے، زائقے، میرے لئے اس کی آنکھوں سے بہتے بیش بہا آنسو، دعائیں، دلار اور پیار، جسے میں ماں کا فرض اور اپنا حق سمجھ کر تادیر معمول گردانتی رہی۔
تاہم ماں کی اہمیت کا ادراک مجھے شدت کے ساتھ تب ہوا جب میں نے اپنے آس پاس کئی بالغ بچوں کو ماں کو کھونے کے بعد آس کے لیے سسکتے اور بلکتے دیکھا۔ اس پر مستزاد ماں کی زندگی میں اس کی قدر نہ کرنے کا دکھ، جو انہیں ہر دم کچوکے لگاتا رہتا ہے۔
ایسے میں کچھ بدنصیب ایسے بھی دیکھے جنہیں بکھرتے گھروندوں، ٹوٹتے رشتوں اور مال و عیال کی چابت نے اپنی جنت سے دور کردیا اور جو ماں کے ہوتے ہوئے بھی ایک بے سمت، بنا سورج، بھٹکتے سیارے کی مانند خلاء میں ڈولتے پھرتے ہیں۔
سچ تو یہ ہے کہ ماں کا سایہ زندگی کے تپتے صحرا میں غنیمت ہے۔ بن ماں کے پلنے والے بچوں کا کھوکھلا پن اور ٹوٹ پھوٹ وہ ناقابلِ تلافی نقصان ہوتا ہے جس کا ازالہ زندگی بھر ممکن نہیں ہوتا۔ بقول عصمت چغتائی کہ ’ماں کی ممتا سے محروم بچوں کی کج روی عمر بھر اس ٹیڑھی لکیر کی مانند ہوتی ہے جسے جلد بازی میں کھینچ دیا گیا ہو۔
ایک حالیہ تحقیق کے مطابق، ماں کو کھونے والے اکثر مرد حضرات اپنی بیوی اور بڑی بہنوں میں ماں تلاش کرتے ہیں لیکن سچ تو یہ یے کہ ماں جیسی ہستی کا تو کوئی نعم البدل ہو ہی نہیں سکتا۔ لہٰذا اس عظیم ہستی کی قدر کریں، اس کی بیماری میں صحت اور کمزوری میں طاقت بنیں جبکہ تنہائی میں اس کی دل جوئی کریں تاکہ اسے احساس ہوکہ آپ کی پرورش ماں کے لیے محض گھاٹے کا سودا نہیں تھا اور اس کی تربیت رائیگاں نہیں گئی۔
سو آج کا دن تمام ماؤں کے نام۔ آج طے کرلیں کہ زندگی میں اگر آپ نے کبھی بھی ماں کا دل دکھایا ہے تو اُس کو پکڑلیں، معافی مانگ لیں، اور یہ طے کرلیں کہ زندگی میں کبھی ایسا موقع نہیں آنے دیں گے جب آپ کو اپنے کیے پر پچھتاوا محسوس ہو۔
ڈاکٹر ارم حفیظ کراچی کی معروف نجی یونیورسٹی کے میڈیا اسٹڈیز شعبے میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔ ڈاکٹر ارم نے جامعہ کراچی کے شعبہ ماس کمیونیکیشن سے پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی حاصل کی ہے۔ ان کا ای میل ایڈریس hafeezerum144@gmail.com ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔