1997 میں ہونے والے عام انتخابات کے بعد پاکستان مسلم لیگ (ن) میں اختلافات پیدا ہوئے، جو جماعت کے اندر ایک اور پارٹی بنانے کی وجہ بنے۔
اس دھڑے نے 1999 میں نواز شریف کی حکومت کے خلاف اس وقت کے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کی جانب سے کی گئی فوجی بغاوت کا بھرپور ساتھ دیا تھا، مسلم لیگ (ن) کے ناراض اراکین نے 2002 میں پاکستان مسلم لیگ (ق) کے نام سے ایک جماعت کی بنیاد رکھی، جو 2002 کے عام انتخابات کے بعد مشرف حکومت کا اہم ترین حصہ بنی۔
2002 کے اتنخابات میں مسلم لیگ (ق) کو 25.7 فیصد ووٹ ملے اور اس نے 342 نسشتوں میں سے 126 نشستوں پر کامیابی حاصل کرکے وفاق میں حکومت بنائی۔
2002 میں 126 نشستیں جیتنے والی مسلم لیگ (ق) کو 2008 میں کافی نقصان اٹھانا پڑا، جہاں اسے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں کے سامنے شکست ہوئی، تاہم پھر بھی یہ 49 نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی تھی۔
پاکستان مسلم لیگ (ق) نے 2013 کے عام انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی ( پی پی پی) کے ساتھ اتحاد کرکے الیکشن میں حصہ لیا اور یہ جماعت قومی اسمبلی کی 2، پنجاب اسمبلی میں 8 اور بلوچستان اسمبلی میں 4 نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوئی جبکہ اسے خیبرپختونخوا اور سندھ اسمبلی میں ایک سیٹ بھی نہیں مل سکی۔
اگر 2002 کے نتائج پر نظر ڈالی جائے تو یہ جماعت ووٹ حاصل کرنے کے اعتبار سے دوسرے نمبر پر تھی لیکن 2013 میں یہ چھٹے نمبر پر پہنچ گئی۔
مسلم لیگ (ق) مئی 2004 میں مسلم لیگ کے دھڑوں کو متحدہ پاکستان مسلم لیگ (پی ایم ایل) کے پلیٹ فارم پر جمع کرنے میں کامیاب ہوگئی تھی، تاہم اس اتحاد میں مسلم لیگ (ن) شامل نہیں تھی۔ اس اتحاد میں سابق صدر فارق لغاری کی ملت پارٹی، جہانزیب اعوان کی نیشنل پیپلز پارٹی، ارباب غلام رحیم کا سندھ ڈیموکریٹک الائنس، حامد ناصر چٹھہ کہ مسلم لیگ (جونیجو)، پیر پگارا کی مسلم لیگ (فنکشنل)، منظور وٹو کی مسلم لیگ (جناح) اور اعجاز الحق کی مسلم لیگ (ضیاء) شامل تھیں، بعدِ ازاں مسلم لیگ (ف) نے متحدہ پی ایم ایل سے اپنی راہیں جدا کرلی تھیں جس کے بعد مسلم لیگ کے صرف 3 دھڑے رہ گئے تھے، جو (ق) لیگ، (ن) لیگ اور (ف) لیگ کی شکل میں سیاسی میدان میں موجود تھے۔
اپریل 2010 میں مسلم لیگ (ق) کی جانب سے اعلان کیا گیا تھا کہ وہ پارلیمنٹ میں 19ویں ترمیم پیش کرے گی کیونکہ جن شقوں پر اسے تحفظات ہیں اسے دور کیا جاسکے۔
ستمبر 2010 میں مسلم لیگ (ق) نے اپنی ہم خیال جماعت مسلم لیگ (ف) کے ساتھ مل کر پاکستان مسلم لیگ (پیر پگارا) بنانے کا اعلان کیا تھا تاہم یہ ساتھ طویل عرصے تک قائم نہیں رہ سکا اور نواز لیگ کی جانب سے پیپلزپارٹی کا ساتھ چھوڑے جانے کے بعد جو خلا پیدا ہوا تھا اُسے پُر کرنے کے لیے مسلم لیگ (ق) نے یوسف رضا گیلانی کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ مگر یہ سفر بھی جلد ختم ہوگیا کیونکہ مسلم لیگ (ق) نے اپنے استعفوں کا اعلان کرتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا کہ پیپلز پارٹی کی حکومت ناکام ہوچکی ہے، تاہم جون 2012 میں جب حکومت نے پیٹرولیم کی قیمتوں میں ریلیف دینے کا اعلان کیا تو اس کے بعد حالات بہتر ہوئے۔
2018 میں سینیٹ انتخابات میں تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ق) نے ایک دوسرے کو دوسری ترجیح کے تحت ایک دوسرے کے نمائندوں کو ووٹ دینے پر رضامندی کا اظہار کیا تھا۔ خواتین کی نشست پر (ق) لیگ نے پی ٹی آئی کی عندلیب عباس کو ووٹ دیا تھا۔
پیپلز پارٹی (ق) لیگ کو پہلے ہی 2018 کے اتنخابات کے لیے اتحاد بنانے کی دعوت دے چکی ہے، تاہم امکان ظاہر کیا جارہا ہے (ق) لیگ اپنی ماضی کی اتحادی جماعت کے بجائے پی ٹی آئی کے ساتھ اتحاد کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے۔
مسلم لیگ (ق) 2017 میں پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی)، سنی اتحاد کونسل (ایس آئی سی) اور مجلسِ وحدت المسلمین (ایم ڈبلیو ایم) سے اتحاد کرچکی ہے، تاہم اس الیکشن میں پیپلز پارٹی کے مقابلے میں یہ عمران خان کی تحریک انصاف کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کو بھی ترجیح دے سکتی ہے کیونکہ یہ دونوں جماعتیں ہم خیال ہیں۔
2017 میں مسلم لیگ (ق) کے سیکریٹری جنرل کے عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد سینیٹر مشاہد حسین سید کو پارٹی پالیسی کے خلاف چلنے کے سبب ایوان میں حاصل پارلیمانی لیڈر کی پوزیشن سے بھی محروم کردیا گیا۔
مشاہد حسین سید کو پارٹی کے سیکریٹری جنرل کے عہدے سے اس لیے ہٹایا گیا تھا کہ پارٹی کے اندر ذمہ داران یہ محسوس کررہے تھے کہ مشاہد حسین کی مسلم لیگ (ن) سے قربت بڑھتی جارہی ہے جس کی وجہ سے وہ حکومتی پالیسیوں پر تنقید کرنے سے ہچکچارہے ہیں۔
نئی حلقہ بندیوں سے متعلق آئین کی 24ویں ترمیم پر ووٹنگ کے اہم ترین موقع پر مسلم لیگ (ق) نے اس بل کی مخالفت کرنے کا فیصلہ کیا اور قومی اسمبلی میں ان کے واحد رکن کامل علی آغا نے اس ترمیم کے خلاف ووٹ دیا، تاہم اس موقع پر بھی مشاہد حسین سید نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہوں نے اس بل کی حمایت کی تھی، لہٰذا ان کی اس حمایت کی وجہ سے انہیں اپنے پارٹی عہدے سے ہاتھ دھونا پڑا تھا۔
مسلم لیگ (ق) کے اس فیصلے کے بعد پارٹی کی اعلیٰ قیادت تک یہ رپورٹس پہنچیں کہ مشاہد حسین سید ایک مرتبہ پھر سینیٹر منتخب ہونے کے لیے مسلم لیگ (ن) کی قیادت سے رابطے میں ہیں۔
مشاہد حسین سید نے 4 فروری 2018 کو باقاعدہ طور پر مسلم لیگ (ن) میں شمولیت کا اعلان کیا تھا۔
پارٹی سربراہ چوہدری شجاعت حسین نے دسمبر 2017 کو توہینِ مذہب کے قانون میں تبدیلی کے حوالے سے خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ قانون ہر مسلمان کے ایمان کی بنیاد پر بنایا گیا ہے اور حکومت اس میں تبدیلی کرنے سے باز رہے کیونکہ اس کی وجہ سے ملک کے کروڑوں مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے اراکینِ پارلیمنٹ پر زور دیا کہ وہ اپنے حکمرانوں کے بیرونی اور غیر اسلامی ایجنڈا سامنے لانے میں احتیاط کریں۔
پاکستان مسلم لیگ (ق) کے صدر چوہدری شجاعت حسین کا مشن ’مسلم لیگ کے تمام دھڑوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا‘ اگست 2017 میں ناکامی سے دوچار ہوگیا تھا، کیونکہ اس کوشش میں وہ مسلم لیگ (ف) کو منانے ناکام ہوگئے تھے۔ انہیں اس بات کے بارے میں آگاہ کیا گیا تھا کہ اگر مسلم لیگ کے پنجاب میں موجود تمام دھڑے ہاتھ ملانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو اس صورت میں مسلم لیگ (ف) اس اتحاد کا حصہ بننے کے لیے تیار ہوجائے گی کیونکہ اس کی دھڑا بندی بھی صوبے میں مسلم لیگ کے دھڑوں کی وجہ سے ہے۔