Election2018

عوامی نیشنل پارٹی

(اے این پی)

عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) 1986 میں موجود میں آئی جس کا منشور خان عبداللہ غفار خان کے نظریات پر مبنی تھا۔

خان عبداللہ غفار ‘باچا خان’ کے نام سے مشہور ہوئے، وہ ہمیشہ صوبائی خو دمختاری کے داعی رہے اور عدم تشدد کا برچار کیا۔

اے این پی نے دراصل نیشنل عوامی پارٹی (این اے پی) کے بطن سے جنم لیا تھا۔

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے پارٹی ہمدرد حیات محمد خان شیرپاؤ کے قتل کے الزام میں این اے پی کے رہنما ولی خان کو گرفتار کرایا اور پارٹی پر پابندی عائد کرادی۔

ضیاءالحق کے دور آمریت میں ولی خان کو رہائی نصیب ہوئی تو انہوں نے اے این پی کی بنیاد رکھی اور پارٹی سے سبکدوش ہونے کے بعد بھی فعال رہے۔

اگرچہ اے این پی باچاخان کے نظریات کی حامی رہی لیکن اب پارٹی نظریہ مارکسزم کی بنیادی نکات سے کنارہ کشی اختیار کرچکی ہے۔

اے این پی اقتصادی امور میں اوپن مارکیٹ کے کردار کو تسلیم کر چکی ہے اور ملازمت کے مواقع پیدا کرنے کے بجائے حکومتی فنڈز پر زیادہ انحصار کرتی ہے۔

اے این پی ایک قوم پرست جماعت ہے جس کی ساری جدوجہد پشتون حقوق کے لیے مرکوز رہی اور نسل، رنگ اور جنس سے بالاتر ہو کر تمام شہریوں کے مساوی حقوق کی علمبرداری کا نعرہ لگایا۔

پارٹی نے ملک میں ہمیشہ قیام امن کی بات کی لیکن اے این پی پر الزام ہے کہ پارٹی نے کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) سے لسانی بنیادوں پر فسادات کیے۔

واضح رہے کراچی میں ایم کیوایم اور اے این پی دو بڑی سیاسی جماعتیں سمجھی جاتی ہیں۔

سیاسی جھکاؤ

اے این پی نے سیکیولر نظریات کے برعکس مذہبی جماعت مثلاً جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمٰن گروپ کے ساتھ سیاسی اتحاد بھی بنایا۔

مضبوط گڑھ

خیبرپختونخواکراچی (پشتون آبادی پر مشتمل بیشتر علاقے)

سیاسی کارنامہ

این ڈبلیو ایف پی کو خیبر پختونخوا کا نیا نام دلایا

اہم معاملات پر مؤقف

انتخابات 2002

پارٹی کی کارکردگی 2002 کے انتخابات میں انتہائی مایوس کن رہی تاہم سیاسی مبصرین نے دعویٰ کیا کہ انتخابات میں مذہبی جماعتوں کے حق میں دھاندلی کی گئی جس کے باعث سیکیولر پارٹی کو انتہائی کم ووٹ ملے۔

انتخابات 2008

اے این پی نے نہ صرف قومی اسمبلی میں 15 نشستیں حاصل کی تھیں بلکہ خیبر پختونخوا کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی ابھر کر سامنے آئی اور حکومت قائم کی۔

انتخابات 2013

2008 کے انتخابات کے مقابلے میں 2013 کے الیکشن میں اے این پی کی کارکردگی انتہائی مایوس کن رہی۔

اے این پی نے 2013 کے انتخابات میں قومی اسمبلی میں صرف 2 نشستیں جیتیں۔ غلام احمد بلور اور امیر حیدر خان ہوتی نے عام نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔

تنازعات

بعدازاں اے این پی کے ناراض صوبائی اسمبلی رکن نے پی پی پی میں شمولیت بھی اختیار کی۔

دہشت گردی کا شکار

اگرچہ عسکری آپریشن کے بعد ملک میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں نمایاں کمی آئی ہے لیکن تاحال دہشت گردی کے خلاف آواز اٹھانے والوں کو جان کا خطرہ رہتا ہے۔

اے این پی کے مطابق ان کے رہنماؤں کو مسلسل سیکیورٹی خدشات لاحق ہیں تاہم چیف جسٹس آف پاکستان کی ہدایت کے بعد اے این پی کے چیف اسفندیار والی اور جنرل سیکریٹری میاں افتخار حسین سمیت دیگر سیاست دانوں، پولیس افسران اور ججز کی سیکیورٹی واپس لے لی گئی۔

منشور (اہم نکات)

اگرچہ پارٹی کے منشور میں متعدد وعدوں کا ذکر موجود ہے لیکن مختلف مسائل پر پارٹی کی پالیسی متعلقہ امور پر اپنی حکمت عملی اپنانے میں ناکام رہی۔