عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) 1986 میں موجود میں آئی جس کا منشور خان عبداللہ غفار خان کے نظریات پر مبنی تھا۔
خان عبداللہ غفار ‘باچا خان’ کے نام سے مشہور ہوئے، وہ ہمیشہ صوبائی خو دمختاری کے داعی رہے اور عدم تشدد کا برچار کیا۔
اے این پی نے دراصل نیشنل عوامی پارٹی (این اے پی) کے بطن سے جنم لیا تھا۔
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے پارٹی ہمدرد حیات محمد خان شیرپاؤ کے قتل کے الزام میں این اے پی کے رہنما ولی خان کو گرفتار کرایا اور پارٹی پر پابندی عائد کرادی۔
ضیاءالحق کے دور آمریت میں ولی خان کو رہائی نصیب ہوئی تو انہوں نے اے این پی کی بنیاد رکھی اور پارٹی سے سبکدوش ہونے کے بعد بھی فعال رہے۔
اگرچہ اے این پی باچاخان کے نظریات کی حامی رہی لیکن اب پارٹی نظریہ مارکسزم کی بنیادی نکات سے کنارہ کشی اختیار کرچکی ہے۔
اے این پی اقتصادی امور میں اوپن مارکیٹ کے کردار کو تسلیم کر چکی ہے اور ملازمت کے مواقع پیدا کرنے کے بجائے حکومتی فنڈز پر زیادہ انحصار کرتی ہے۔
اے این پی ایک قوم پرست جماعت ہے جس کی ساری جدوجہد پشتون حقوق کے لیے مرکوز رہی اور نسل، رنگ اور جنس سے بالاتر ہو کر تمام شہریوں کے مساوی حقوق کی علمبرداری کا نعرہ لگایا۔
پارٹی نے ملک میں ہمیشہ قیام امن کی بات کی لیکن اے این پی پر الزام ہے کہ پارٹی نے کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) سے لسانی بنیادوں پر فسادات کیے۔
واضح رہے کراچی میں ایم کیوایم اور اے این پی دو بڑی سیاسی جماعتیں سمجھی جاتی ہیں۔
سیاسی جھکاؤ
اے این پی نے سیکیولر نظریات کے برعکس مذہبی جماعت مثلاً جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمٰن گروپ کے ساتھ سیاسی اتحاد بھی بنایا۔
مضبوط گڑھ
خیبرپختونخواکراچی (پشتون آبادی پر مشتمل بیشتر علاقے)
سیاسی کارنامہ
این ڈبلیو ایف پی کو خیبر پختونخوا کا نیا نام دلایا
اہم معاملات پر مؤقف
وفاق کے زیر انتظام علاقے (فاٹا) کا خیبر پختونخوا میں ضم ہونے کے بعد پشتون اکثریتی آبادی والے علاقوں پر مشتمل علیحدہ صوبے کا مطالبہ
انتظامی امور میں عسکری مداخلت کی سخت مخالف اور عسکری بجٹ میں کٹوتی کی خواہاں ہے تاکہ بجٹ کو عوام کی مزید فلاح و بہبود کے لیے خرچ کیا جاسکے۔
صوبائی خود مختاری اور 18 ویں ترمیم پر عملدرآمد کی مکمل حامی
اے این پی یقین رکھتی ہے کہ سرکاری افسر کو کسی دوسرے صوبے میں تعینات کرنے سے پہلے صوبائی حکومت سے اجازت طلب کی جائے۔
پارٹی جمہوری نظام کے استحکام پر یقین رکھتی ہے۔
اے این پی کا استدلال ہے کہ پڑوسی ممالک مثلاً بھارت اور افغانستان سمیت دیگر ممالک سے دوستانہ تعلقات قائم کیے جائیں اور کسی بھی ملک کے داخلی معاملات میں دخل اندازی سے گریز کیا جائے۔
انتخابات 2002
پارٹی کی کارکردگی 2002 کے انتخابات میں انتہائی مایوس کن رہی تاہم سیاسی مبصرین نے دعویٰ کیا کہ انتخابات میں مذہبی جماعتوں کے حق میں دھاندلی کی گئی جس کے باعث سیکیولر پارٹی کو انتہائی کم ووٹ ملے۔
انتخابات 2008
اے این پی نے نہ صرف قومی اسمبلی میں 15 نشستیں حاصل کی تھیں بلکہ خیبر پختونخوا کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی ابھر کر سامنے آئی اور حکومت قائم کی۔
انتخابات 2013
2008 کے انتخابات کے مقابلے میں 2013 کے الیکشن میں اے این پی کی کارکردگی انتہائی مایوس کن رہی۔
اے این پی نے 2013 کے انتخابات میں قومی اسمبلی میں صرف 2 نشستیں جیتیں۔ غلام احمد بلور اور امیر حیدر خان ہوتی نے عام نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔
تنازعات
سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے 1999 میں مارشل لا نافذ کردیا، پرویز مشرف کے ساتھ سیاسی اتحاد کے معاملے پر اے این پی کے چیف اجمل خٹک کا اپنے پارٹی رہنماؤں سے اختلاف ہوا اور یہ اختلاف شدت اختیار کر گیا جس کے بعد انہوں نے پارٹی سے خود کو علیحدہ کرلیا۔
اجمل خٹک سیاسی اتحاد میں شمولیت کے خواہاں تھے۔
بعدازاں پارٹی کی ذمہ داری ولی خان کے بیٹے اسفند یار ولی خان کے سپرد کردی گئی اور پھر اجمل خٹک نے بھی دوبارہ پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق اے این پی کے رہنماؤں اور ورکرز خصوصاً خواتین ورکرز کے مابین کشیدگی پائی جاتی ہے جس کی وجہ یہ بتاتی گئی کہ پارٹی نے اتنخابات 2018 کے لیے نئے چہروں کے بجائے پرانے چہروں کو ہی پارٹی ٹکٹ تفویض کیے۔
بعدازاں اے این پی کے ناراض صوبائی اسمبلی رکن نے پی پی پی میں شمولیت بھی اختیار کی۔
دہشت گردی کا شکار
دہشت گردی کے خلاف واضح موقف رکھنے کی وجہ سے اے این پی کے رہنماؤں پر متعدد حملے ہوچکے ہیں۔
اے این پی کے متعدد ورکرز دہشت گردوں کو حملے میں اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔
پارٹی کے سینئر رہنما بشیر بلور کے صاحبزادے ہارون بلور 10 جولائی 2018 کو انتخابی مہم کے سلسلے میں ایک کارنر میٹنگ میں خود کش حملے میں جاں بحق ہوگئے تھے۔ اس حملے میں دیگر 20 سے زائد افراد بھی لقمہ اجل بن گئے تھے، اکثریت پارٹی کارکنوں کی تھی۔
پارٹی کے سینئر رہنما اور رکن صوبائی اسمبلی بشیر احمد بلور 2012 میں خود کش حملے میں جاں بحق ہوگئے تھے، تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی۔
بشیر احمد بلور پر قاتلانہ حملے میں ان کے سیکریٹری، پولیس افسر اور 6 لوگ جاں بحق ہوئے تھے۔
2008 میں پارٹی کے چیف اسفندیار ولی خود کش حملے میں بال بال بچ گئے تھے جبکہ 2010 میں ان کی بہن ڈاکٹر گلالئی حملے میں زخمی ہوئی۔
اگرچہ عسکری آپریشن کے بعد ملک میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں نمایاں کمی آئی ہے لیکن تاحال دہشت گردی کے خلاف آواز اٹھانے والوں کو جان کا خطرہ رہتا ہے۔
اے این پی کے مطابق ان کے رہنماؤں کو مسلسل سیکیورٹی خدشات لاحق ہیں تاہم چیف جسٹس آف پاکستان کی ہدایت کے بعد اے این پی کے چیف اسفندیار والی اور جنرل سیکریٹری میاں افتخار حسین سمیت دیگر سیاست دانوں، پولیس افسران اور ججز کی سیکیورٹی واپس لے لی گئی۔
منشور (اہم نکات)
اگرچہ اے این پی نے دعویٰ کیا کہ وہ نئے منشور کے انتخابات میں حصہ لیں گے لیکن ان کی ویب سائٹ پر پرانا منشور ہی موجود ہے جسے 2013 میں شائع کیاا گیا تھا۔
منشور میں متعدد مسائل پر غیر واضح موقف ہے۔ اے این پی کے ووٹرز یہ جان سکیں گے کہ پارٹی ‘کیا’ ارادہ رکھتی ہے لیکن ان ارادوں کی تکمیل ‘کیسے’ ہو گی اس بارے میں کوئی وضاحت نہیں ہے۔
خواتین کے حقوق سے متعلق اے این پی کا منشور وعدہ کرتا ہے کہ مخصوص نشستوں پر خواتین اور اقلیتوں کی تعداد بڑھائی جائے گی اور مذہب، جنس اور زبان سے بالاتر ہوکر تمام شہریوں کو یکساں حقوق دیے جائیں گے۔
منشور میں وعدے کے باوجود اے این پی کی خاتون ورکز نے شکایت کی کہ پارٹی قیادت کی جانب سے ٹکٹ کی فیس میں اضافے کی وجہ سے کاغذات نامزدگی جمع نہیں کراسکیں۔
دوسری جانب پارٹی نے دعویٰ کیا کہ فیس میں اضافے کا مقصد فنڈز میں بہتری لانا ہے۔
منشور کے مطابق شہداء کے اہل خانہ کے لیے فنڈز قائم کیا جائےگا۔
منشور میں صوبائی خود مختاری کی مکمل حمایت موجود ہے۔
سیکیولر نظریات سے جڑھے رہتے ہوئے اے این پی کا واضح مؤقف ہے کہ وہ پشتون ثقافت میں ‘اسلامائزیشن’ کے خلاف ہے۔
پارٹی منشور میں وعدہ کرتی ہے کہ خواتین، دہشت گردی سے متاثرہ خاندان اور غریب گھرانوں سمیت دیگر ضرورت مندوں کے لیے فنڈز تشکیل دیے جائیں گے تاہم ملازمت کے مواقع پیدا کرنے پر زیادہ توجہ نہیں۔
ملازمت کے مواقعوں کے حوالے سے منشور میں گھریلو صنعت اور کاروبار پر زیادہ زور دیا گیا۔
اگرچہ پارٹی کے منشور میں متعدد وعدوں کا ذکر موجود ہے لیکن مختلف مسائل پر پارٹی کی پالیسی متعلقہ امور پر اپنی حکمت عملی اپنانے میں ناکام رہی۔