سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے 2008 میں ملک کی صدارت سے استعفیٰ دینے کے بعد سیاسی عزائم کو زندہ رکھنے کے لیے سیاسی جماعت تشکیل دینے کا اعلان کیا، 14 اگست 2010 کو آل پاکستان مسلم لیگ کا قیام عمل میں لایا گیا۔
اے پی ایم ایل نے پورے ملک میں انتخابات کا بائیکاٹ کیا مگر چترال سے پارٹی کے 2 امیدوار کامیاب ہوئے، ان میں سے ایک نے قومی اسمبلی کی نشست جبکہ دوسرے نے خیبرپختونخوا اسمبلی کی نشست پر کامیابی حاصل کی۔
2005ء میں مشرف نے اس علاقے میں لورائی ٹنل کی تعمیر کا کام دوبارہ شروع کروایا تھا۔
پارٹی کو قائم رکھنے کی بارہا کوشش کے باوجود بھی اے پی ایم ایل ابھر کر سامنے آنے میں ناکام رہی ہے کیونکہ اس کے سربراہ پر عدالتوں میں چل رہے مقدمات کی وجہ سے دبئی میں خود ساختہ جلاوطن ہیں۔
جب نواز شریف عدالتی فیصلے کے نتیجے میں مسلم لیگ (ن) کی صدارت سے فارغ ہوئے، تب پرویز مشرف کو آل پاکستان مسلم لیگ کی صدارت سے ہٹانے کی استدعا کی گئی، جسے لاہور ہائی کورٹ نے مسترد کر دیا تھا۔
جنرل (ر) پرویز مشرف نے اپنی سربراہی میں بننے والے 23 جماعتوں پر مشتمل سیاسی اتحاد کا بھی اعلان کیا، تاہم جن سیاسی جماعتوں کو اتحاد کا حصہ بتایا جارہا تھا، ان میں سے چند جماعتوں نے واضح کیا کہ وہ ابھی صرف اس تجویز پر غور کر رہے ہیں، وہ اتحاد کا حصہ نہیں ہیں۔
مشرف کو اکثر مختلف مقدمات میں عدالتوں کے سامنے پیش نہ ہونے اور بطور صدرِ پاکستان اپنے کردار کی وجہ سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا، کمیشن برائے گمشدہ افراد کے سربراہ جاوید اقبال کا یہ دعویٰ بھی کافی خبروں میں رہا کہ جنرل (ر) پرویز مشرف نے 4000 پاکستانیوں کو امریکا کے حوالے کیا۔
اے پی ایم ایل کے سربراہ کو 2013 کے انتخابات میں الیکشن ٹربیونل کی جانب سے حصہ لینے سے روک دیا گیا تھا۔