پاکستان مسلم لیگ (ن)
جماعت کا قیام 1992 میں عمل میں آیا۔
1990 میں اسلامی جمہوری اتحاد نے نواز شریف کی قیادت میں الیکشن میں کامیابی حاصل کی تھی تاہم اتحاد میں شامل دیگر جماعتوں سے اختلافات کے بعد 1993 کے انتخابات سے قبل نواز شریف نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کی بنیاد رکھی۔
اہم رہنما
- نواز شریف (تاحیات قائد)
- شہباز شریف (صدر)
- مریم نواز (نواز شریف کی صاحبزادی)
- حمزہ شہباز (شہباز شریف کے صاحبزادے)
- شاہد خاقان عباسی
- خواجہ سعد رفیق
- خواجہ محمد آصف
- احسن اقبال
- چوہدری نثار علی خان (ناراض رہنما)
- راجا ظفر الحق
- پرویز رشید
- مشاہد اللہ خان
- اسحٰق ڈار (خود ساختہ جلا وطن رہنما)
کلیدی امور
مسلم لیگ (ن) کا بیشتر زور بنیادی ڈھانچے، ترقیاتی کاموں پر ہوتا ہے، جسمیں سڑکیں، ریل کا نظام، پبلک ٹرانسپورٹ اور دیگر شامل ہیں جبکہ ان کےمنشور میں اسے ڈیموکریٹک گورنس کا نام دیا گیا ہے۔
حال ہی میں پارٹی نے ریاست کے 3 اہم ستونوں کے درمیان طاقت کے توازن کےحوالے سے بھی آواز بلند کی ہے جبکہ جیسے جیسے انتخابات قریب آرہے ہیںپارٹی قیادت کی جانب سے ’ووٹ کو عزت دو‘ کا نعرہ شدت اختیار کرتا جارہاہے۔
خیال رہے کہ نواز شریف نے خود ایک فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کے دور میںان کی مدد سے سیاست کا آغاز کیا تھا تاہم وہ ہر گزرتے سال کے ساتھاسٹیبلشمنٹ سے دور ہوتے گئے اور اب جمہوریت کے لیے سب سے متحرک نظر آتےہیں۔
ماضی میں ملک کی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والی مذہبی جماعتوں کے قریبہونے اور مرکزی ترقی کے ماڈل کے حوالے سے متحرک رہنے کے سبب مسلم لیگ(ن) نے خود کو دیگر سیاسی جماعتوں سے دور کرلیا ہے اور مزید دور ہوتےجارہے ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کی دلی خواہش ہے کہ روایتی حریف اور ہمسائے، بھارت کے ساتھتجارتی سرگرمیاں بڑھائی جائیں، تاہم اس حوالے سے حالیہ کوششوں کو نریندرمودی کی حکومت کی جانب سے سرحد پر شروع کی جانے والی کشیدگی اور انتہائیسخت رویے کے باعث نقصان پہنچا۔
1992 میں قیام
مسلم لیگ (ن) 1992 میں اپنے قیام کے بعد سے ہی ملک کے سیاسی میدان میں
انتہائی اہم کھلاڑی کے طور پر سامنے آتی رہی ہے، اس کے باوجود کہ نواز شریف اسلامی جمہوری اتحاد کا حصہ رہتے ہوئے ملک کے اعلیٰ سیاسی عہدوں پر براجمان رہ چکے تھے۔
انتخابات 1993، 1997 اور 2002
مسلم لیگ (ن) 1993 کے انتخابات کے بعد ملک کی اہم اپوزیشن جماعت کے طور پر سامنے آئی جبکہ 1997 کے انتخابات میں پارٹی نے واضح اکثریت کے ساتھ حکومت قائم کی تاہم 2002 کے انتخابات میں مسلم لیگ(ن) قابل ذکر نشستیں حاصل کرنے میں ناکام رہی، کہ اس موقع پر ان کے بیشتر رہنما جیلوں میں قید تھے یا ملک سے باہر جلا وطنی کاٹ رہے تھے۔
انتخابات 2008
- 2008 کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن)، پی پی پی کے بعد ملک کی دوسری بڑیجماعت کے طور پر سامنے آئی اور ایک غیر معمولی اقدام کے طور پر روایتیسیاسی حریف ہونے کے باوجود حکومتی نشستوں پر براجمان ہوئی اور کابینہ کاحصہ بن گئی تاہم یہ غیر معمولی اتحاد زیادہ عرصے نہیں چل سکا اور مسلملیگ (ن) اپوزیشن کی نشستوں پر آکر بیٹھ گئی اور 2013 کے انتخابات کاتحمل سے انتظار کرنے لگی۔
انتخابات 2013
- مسلم لیگ (ن) 2013 کے انتخابات میں مرکز میں ایک بڑی سیاسی جماعت کے طورپر سامنے آئی تھی اور اس نے پنجاب اسمبلی میں ایک تہائی سے زیادہاکثریت حاصل کی تھی، نواز شریف نے پختونخوا ملی عوامی پارٹی اور جمعیتعلماء اسلام (ف) کے ساتھ اتحاد کرکے وفاق میں حکومت تشکیل دی۔ یوں نواز شریف تیسری مرتبہ وزیراعظم کا حلف لینے والے ملک کے واحد فرد ٹھہرے۔
مسلم لیگ (ن) نے وفاق کے علاوہ صوبہ پنجاب میں بھی حکومت قائم کی اورشہباز شریف کو صوبے کا وزیراعلیٰ مقرر کیا جبکہ صوبہ بلوچستان میں نیشنلپارٹی سے معاہدہ کرکے عبدالمالک بلوچ کو ڈھائی سال کے لیے صوبے کاوزیراعلیٰ مقرر کیا جبکہ اسی معاہدے کے تحت بقیہ ڈھائی سال مسلم لیگ (ن)کے نامزد نمائندے نے وزارت اعلیٰ کا عہدہ سنبھالنا تھا۔
سندھ اور پختونخوا میں نمائندگی ہونے کے باوجود مسلم لیگ (ن) نے سندھ اورخیبرپختونخوا اسمبلیوں میں بالترتیب پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو حکومت تشکیل دینے دی۔
اہم سیاسی معاملات
مسلم لیگ (ن) نے 1996 میں بینظیر بھٹو کو وزارت عظمیٰ کے عہدے سے ہٹانےمیں اہم کردار ادا کیا تھا، جس کے بعد نواز شریف غیر معمولی اکثریت حاصلکرکے حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوئے۔
نواز شریف نے اپنے دوسرے دور حکومت میں آٹھویں آئینی ترمیم کو فوریطور پر منسوخ کرنے کے لیے اقدامات کیے جو اس وقت تک دو مرتبہ استعمال کیگئی تھی ایک مرتبہ نواز شریف کو ہٹانے کے لیے اور ایک مرتبہ بینظیر کےخلاف استعمال ہوئی تھی۔
نواز شریف کے دوسری مرتبہ اقتدار میں آنے کے بعد 2 اہم واقعات سامنےآئے، جن میں ایک جوہری دھماکے اور دوسرا کارگل جنگ تھی۔ نواز شریف کےمذکورہ اقدامات پر انہیں شدید بین الاقوامی دباؤ کا سامنا تھا جس پرانہوں نے اس وقت کے امریکی صدر بل کلنٹن سے ثالثی کا کردار ادا کرنے کیدرخواست کی جو کامیاب ثابت ہوئی۔
اس کے علاوہ شدید تنقید کا شکار رہنے والا لاہور سے اسلام آباد موٹر وے بعدمیں بڑی کامیابی ثابت ہوا جس کے بعد مسلم لیگ (ن) نے 2013 کے انتخابات کے لیے مزید سڑکیں اور بہتر انفرااسٹرکچر کو اپنے منشور کا حصہ بنایا۔
پرویز مشرف کی جانب سے نواز شریف کی حکومت ختم کرنے اور انہیں ملک بدرکیے جانے کے باوجود مسلم لیگ (ن) نے انتخابات کا بائیکاٹ کرنے کے بجائےاس میں شرکت کی اور تقریبا آدھی نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔
2006 میں مسلم لیگ (ن) نے پیپلز پارٹی اور دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھلندن میں میثاق جمہوریت پر دستخط کیے۔
پی پی پی کی جانب سے ججز، جن میں جسٹس افتخار چوہدری بھی شامل تھے، کوبحال کرنے میں تاخیر کے باعث شروع ہونے والی وکلا تحریک نے شدت اختیارکی تو نواز شریف نے مذکورہ تحریک میں قائدانہ کردار ادا کیا، یہاں تک کےنواز شریف کی قیادت میں ابھی قافلہ گوجرانوالہ ہی پہنچا تھا کہ اس وقتکے آرمی چیف نے مداخلت کی، جس کے نتیجے میں جسٹس افتخار چوہدری عہدے پربحال ہوگئے۔
نوازشریف نے میمو گیٹ اسکینڈل کے حوالے سے بھی مرکزی کردار ادا کیا جسکے نتیجے میں امریکا میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی کو مستعفی ہوناپڑا۔ نواز شریف مذکورہ کیس میں درخواست گزار تھے جو پی پی پی کےلیے مشکلات کا باعث بنا، اور انہوں نے کچھ سالوں بعد اس کردار کو عوامی سطحپر تسلیم بھی کیا تھا۔
تنازعات
1999 میں نواز شریف نے مبینہ طور پر آئین میں متعدد ترامیم کے ذریعےریاست کے تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں لینے اور امیر المومنین (ماننےوالوں کے رہنما) بننے کا فیصلہ کیا تھا، تاہم انہیں اسی سال معزول کردیاگیا۔
مسلم لیگ (ن) کو حال ہی میں ایک اور تنازع کا سامنا اس وقت کرنا پڑا جبشریف خاندان کی اربوں روپے مالیت کی آف شور کمپنیوں کے حوالے سے پاناماپیپرز لیکس میں انکشافات سامنے آئے۔ پارلیمنٹ میں اس معاملے کے حل میںناکامی کے بعد اپوزیشن نے اس معاملے کو عدالت میں اٹھایا اور سپریم کورٹکے فیصلے کی روشنی میں تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی قائم کی گئی جبکہ نوازشریف کو وزارت عظمیٰ کے عہدے سے سبکدوش ہونا پڑا۔
اس سے قبل 12 اکتوبر 1999 کو مسلم لیگ (ن) کو ملک کے سب سے بڑے تنازع کاسامنا کرنا پڑا تھا جب نواز شریف پر اس وقت کے آرمی چیف جنرل پرویزمشرف کا سری لنکا سے واپس آنے والے طیارے کو کراچی میں مبینہ طور پرلینڈ کرنے کی اجازت نہ دینے کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا تھا، جس کےنتیجے میں ملک میں مارشل لاء نافذ کردیا گیا اور نواز شریف کی حکومت کومعزول کردیا گیا۔ اس واقعے کے بعد نواز شریف کو جیل بھیج دیا گیا تاہمایک معاہدے کے بعد انہیں، ان کے بھائی اور ان کے خاندان کے دیگر افرادکو سعودی عرب میں 10 سال کی جلا وطنی کاٹنے کے لیے ملک بدر کردیا گیا۔شریف خاندان کے ملک سے جانے کے بعد شہباز شریف کے صاحبزادے حمزہ شہبازنے خاندان کا کاروبار اور پارٹی کے معاملات سنبھالے۔
2013 کے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد اپوزیشن جماعتوں کی جانبسے مسلم لیگ (ن) پر انتخابات میں دھاندلی کے الزامات لگائے گئے جبکہعمران خان کی سربراہی میں پی ٹی آئی نے 126 روز تک اسلام آباد میںدھرنا دیا اور معاملے کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن کی تشکیل پر رضامندی ظاہر کی جبکہ دسمبر 2014 میں پشاور میں ہونے والے آرمی پبلک اسکولپر دہشت گردوں کے حملے کے بعد دھرنا ختم کرنے کا اعلان کیا تاہم جوڈیشلکمیشن کے فیصلے میں کہا گیا کہ دھاندلی کے شواہد نہیں ملے۔
1997 میں سپریم کورٹ پر حملہ: سپریم کورٹ میں وزیراعظم نواز شریف کے خلافتوہین عدالت کیس کی سماعت کے دوران مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے ارکان اورمسلم لیگ (ن) کے کارکنوں نے نواز شریف کے پولیٹیکل سیکریٹری کرنل (ر)مشتاق طاہرخیلی کی سربراہی میں عدالت پر حملہ کردیا، اس وقت کے چیفجسٹس سجاد علی شاہ کو اس حوالے سے ہجوم کے عدالت میں پہنچے سے کچھ دیگرقبل بتایا گیا جس پر انہوں نے کیس کی سماعت ملتوی کردی تاہم مشتعل ہجومنے کمرہ عدالت پہنچ کر فرنیچر کو نقصان پہنچایا۔
قرض اتارو ملک سنوارو اسکیم: مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے اپنے دور میںملک میں خود کفالت، عالمی بینک سے قرض حاصل نہ کرنے اور عالمی برادری سےقرض کے حصول کے حوالے سے قائم کشکول توڑنے کے لیے ایک اسکیم متعارفکرائی تھی، جس میں عوام کی جانب سے 2 ارب روپے جمع کرائے گئے اور اسٹیٹبینک کی رپورٹ کے مطابق مسلم لیگ (ن) نے دعویٰ کیا کہ تمام رقم قومیخزانے میں مذکورہ حوالے سے جمع کرادی گئی ہے تاہم اپوزیشن نے اس منصوبےکو غیر شفاف قرار دیا تھا جبکہ گزشتہ سال اسٹیٹ بینک نے اپنی ایک رپورٹمیں کہا تھا کہ وہ تمام رقم ان افراد کو واپس کردی گئی ہے، جنہوں نےمذکورہ اسکیم کے لیے یہ جمع کرائی تھی۔
حدیبیہ پیپرز ملز کیس: نواز شریف کی حکومت ختم کیے جانے کے بعد 25 اپریل2000 میں اسحٰق ڈار نے منی لانڈرنگ کے حوالے سے مجسٹریٹ کے سامنے ایکبیان قلمبند کرایا تھا، جس میں اسحٰق ڈار نے ایک کروڑ 48 لاکھ 60 ہزارروپے کی منی لانڈرنگ اور نواز شریف کے بھائی کے لیے سکندر مسعود اورطلعت مسعود قاضی کے ناموں پر 2 بینک اکاؤنٹس کھلوانے کے الزامات کوتسلیم کیا تھا۔ حال ہی میں سپریم کورٹ کے ایک بینچ کی جانب سے مذکورہمعاملے پر ریمارکس سامنے آئے کہ یہ کیس شریف خاندان کے خلاف سیاسی طورپر استعمال کیا گیا تھا۔