نقطہ نظر

مہاتیر محمد، ملائیشیا کا نجات دہندہ یا مسائل کی جڑ

1981ء سے 2003ء تک آہنی گرفت کیساتھ حکمرانی کرنے کے بعد بھی مہاتیر محمد نے ملکی سیاست میں ہمیشہ کنگ میکر کا کردار ادا کیا

پہلا دور 1981ء سے 1985ء کا ہے

اس دور میں مہاتیر نے ریاستی مداخلت کے ذریعے ملک کو جاپان کی طرز پر صنعتی ملک میں ڈھالا۔ یہ عالمی سطح پر مشکل معاشی دور تھا۔ معاشی بحران کی وجہ سے تیل کی قیمتیں اور شرح سود بلند ترین سطح پر تھی۔ مہاتیر نے اقتدار سنبھالنے کے بعد معیشت کا پہیہ چلانے کے لیے ترقیاتی بجٹ میں نمایاں اضافہ کیا لیکن 1982ء کا الیکشن جیتنے کے بعد سادگی کی پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے حکومتی اخراجات پر روک لگادی۔

مزید پڑھیے: ملائیشیا: ’اگر الیکشن میں دھاندلی نہیں ہوئی تو ہم جیت جائیں گے‘

ریاست کی ملکیت اداروں پر نگرانی بڑھائی لیکن انڈسٹریلائزیشن کے لیے بنائے گئے ادارے کو سادگی کی پالیسی سے مستثنیٰ رکھا۔ صنعتیں لگنے سے درآمدات کم ہوئیں۔ صنعتی منصوبے جاپان کے ساتھ شراکت میں لگائے گئے جس کے لیے جاپان سے بھاری قرض لیے گئے، لیکن یہ قرض بہت کم شرح سود پر تھے۔ 1984ء میں مہاتیر حکومت نے پھر پالیسی بدلی اور ٹیکس اصلاحات کرکے حکومتی اخراجات پھر بڑھا دیئے گئے، پرائیویٹائزیشن، ڈی ریگولیشن اور مالیاتی لبرلائزیشن کو اپنایا گیا، اور ان سب کا نتیجہ یہ نکلا کہ 86-1985ء میں ملائیشیا بھاری قرضوں اور بڑھتے ہوئے اخراجات کی وجہ سے شدید معاشی بحران کا شکار ہوگیا۔

دوسرا معاشی دور 1986ء سے 1997ء

مہاتیر حکومت کا دوسرا معاشی دور 1986ء سے 1997ء پر محیط ہے۔ اس دور میں ایک بار پھر اکنامک لبرلائزیشن کی پالیسی اپنائی گئی۔ جزوی نجکاری ہوئی اور محدود شعبوں میں اقتصادی اور ثقافتی ڈی ریگولیشن کی اجازت دی گئی۔ انڈسٹریل کوآرڈینیشن ایکٹ 1986ء کی وجہ سے برآمدی مصنوعات کی پیداوار میں اضافے کا رجحان پیدا ہوا۔ سرمایہ کاری کے نئے قوانین سے ویلیو ایڈڈ انڈسٹری نے فروغ پایا، فنی تربیت پر توجہ دی گئی اور ملک میں ٹیکنالوجی اپ گریڈیشن ہوئی۔

1985ء میں G-7 ممالک نے امریکی ڈالر کے مقابلے میں جاپانی ین کی قیمت بڑھانے پر اتفاق کیا جس سے ملائیشیا کے قرضے دوگنا ہوگئے۔ ملائیشیا کے مرکزی بینک نے اس کے جواب میں امریکی ڈالر کے مقابلے میں رنگٹ کی قیمت کم کردی۔ زر کی قدر میں اس کمی سے ملائیشین معیشت کو کچھ سہارا ملا۔ جاپانی ین کی قیمت میں اضافے سے جاپان، تائیوان اور جنوبی کوریا کی صنعتیں چین اور جنوب مشرقی ایشیاء کی طرف منتقل ہوئیں اور ملائیشیا کو بھی اس سے فائدہ ہوا اور صنعت کاروں نے وہاں کا رخ کیا۔

1997ء میں جنوب مشرقی ایشیاء کے معاشی بحران نے ایک بار پھر براہِ راست بیرونی سرمایہ کاری اور تیزی سے ترقی کرتی معیشت کو نقصان پہنچایا۔ 88-1987ء میں اکثر کمرشل بینکوں کے 30 فیصد قرض ڈوب گئے تھے جس پر 1989ء کا فنانشل انسٹی ٹیوشنز ایکٹ لایا گیا تھا۔ مالیاتی نظام مزید سخت کیا گیا لیکن اس سے غیر ملکی نجی قرضوں کا حصول مشکل ہوگیا۔ غیر ملکی نجی قرضوں کے لیے مرکزی بینک سے شرح سود کی منظوری لازمی قرار پائی۔

1997ء کے بعد کا دور

ان مشکلات کے حل کے لیے ایک بار پھر معاشی آزادی کی پالیسی اپنائی گئی اور اسٹاک مارکیٹ کے فروغ پر توجہ دی گئی۔ مالیاتی آزادی پر بینکوں نے قرضوں کے اجراء میں تیزی دکھائی جس سے پراپرٹی اور اسٹاک مارکیٹ کا نیا معاشی بلبلہ پیدا ہوا۔ جس نے ایک بار پھر 1997ء کے معاشی بحران کو جنم دیا اور کوالالمپور اسٹاک مارکیٹ سے غیر ملکی سرمایہ کاروں نے سرمایہ کھینچ لیا۔ نومبر 1997ء میں صرف 3 دن کے اندر کوالالمپور اسٹاک مارکیٹ سے 70 ارب ملائیشین رنگٹ نکل گئے۔ اسی معاشی بحران میں مہاتیر محمد اور ان کے نائب وزیرِاعظم انور ابراہیم کی راہیں جدا ہوئیں۔

مہاتیر حکومت نے ایک بار پھر سخت مالیاتی کنٹرول اپنایا اور سرمائے کی بیرونِ ملک پرواز روکنے کی کوشش کی لیکن اس وقت تک پانی سر سے گزر چکا تھا۔ اب ایک اور معاشی بحران سے نکلنے کے لیے کاروبار اور صنعتیں قومیانے کا کام شروع کیا گیا۔ نیشنلائزیشن کے اس عمل کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور کہا گیا کہ مارکیٹ ریٹ سے کئی گنا زائد پر صنعتیں اور کاروبار قومیائے گئے۔ یہ الزام بھی لگا کہ مہاتیر محمد کے ساتھیوں نے پہلے نجکاری میں کمائی کی اور پھر نیشنلائزیشن میں بھی کئی گنا منافع کمایا۔ 1999ء اور 2000ء میں عالمی سطح پر الیکٹرونکس کی مانگ میں اضافے نے ملائیشیا کی معیشت کو سہارا دیا۔

مہاتیر محمد کی سیاسی پالیسیاں

مہاتیر محمد کی معاشی پالیسیوں پر ایک طویل بحث ہے لیکن ان کی سیاسی پالیسیاں بھی کم دلچسپ نہیں۔ مہاتیر محمد حکومتیں بنانے کے علاوہ حکومتیں گرانے کے فن میں بھی ماہر ہیں۔ مہاتیر کا عروج ملائیشیا کے پہلے وزیرِاعظم تنکو عبدالرحمن کی حکومت گرانے کی کوششوں سے ہی ہوا۔ 21 سال کی عمر میں حکمران جماعت میں شامل ہونے والے ڈاکٹر مہاتیر محمد 1964ء میں پہلی بار رکن پارلیمنٹ بنے مگر 1969ء کے الیکشن میں مہاتیر محمد اپنی نشست گنوا بیٹھے۔ الیکشن ہارنے کے بعد مہاتیر محمد نے وزیرِاعظم تنکو عبدالرحمن (Tunku Abdul Rahman Putra) کے خلاف ایک کھلا خط لکھا جس پر انہیں پارٹی سے نکال دیا گیا۔ اس کے بعد مہاتیر محمد نے ملائی قوم کی حالت پر ایک کتاب لکھی جس میں انہوں نے ملائی قوم کو معاشی اعتبار سے پیچھے دھکیلنے کا الزام لگایا اور ساتھ ہی ملائی قوم کو بھی دوسرے درجے کی شہریت پر اکتفا کرنے کا طعنہ دیا۔

ڈاکٹر مہاتیر محمد کی اس کتاب نے انہیں حکمران جماعت کے نوجوان ملائی رہنماؤں میں مقبول بنا دیا اور انہوں نے مہاتیر کو دوبارہ پارٹی میں شامل کرایا۔ 1974ء میں مہاتیر محمد دوبارہ رکن پارلیمنٹ بنے اور تعلیم کی وزارت انہیں سونپی گئی۔ 4 سال کے اندر ہی مہاتیر محمد سب کو پیچھے دھکیل کر پارٹی کے ڈپٹی لیڈر بن گئے اور پھر 1981ء میں وزارتِ عظمیٰ کا تاج ان کے سر پر سجا۔

وزیرِاعظم بننے کے بعد مہاتیر محمد کی بدلتی شخصیت

وزیرِاعظم کی حیثیت سے مہاتیر محمد مزید سخت گیر لیڈر بن کر ابھرے۔ داخلی سیکیورٹی ایکٹ کے تحت انہوں نے اپوزیشن کے کئی لیڈروں کو جیل میں ڈالا۔ اپنے نائب وزیرِاعظم انور ابراہیم کو برطرف کرکے انہیں کرپشن اور جنسی جرائم کے الزام میں جیل بھجوایا۔ مہاتیر نے پہلے دورِ اقتدار میں صحافیوں پر بھی سختی برتی، حکومت پر تنقید کرنے والے اخبارات بند کئے، عدالتوں کے اختیارات پر بھی قدغن لگائی، کئی ججوں کو برطرف کیا۔ مہاتیر محمد نے صرف اندرونی طور پر ہی نہیں، عالمی سطح پر بھی سخت گیر رہنما کا رویہ رکھا۔ امریکا اور یہودی ان کی تنقید کا خاص نشانہ تھے۔

مہاتیر محمد سیاست سے کبھی آوٹ نہیں ہوئے

وزارتِ عظمیٰ چھوڑنے کے بعد بھی مہاتیر محمد سیاسی میدان سے آؤٹ نہیں ہوئے تھے۔ انہوں نے اپنے بعد آنے والے اپنی ہی جماعت کے وزیرِاعظم عبداللہ بداوی کو بھی تنقید کی زد میں رکھا۔ عبداللہ بداوی کو ہٹوا کر مہاتیر محمد نے نجیب رزاق کی راہ ہموار کی۔ نجیب رزاق کے وزیراعظم بننے کے کچھ ہی عرصے بعد مہاتیر ان کے خلاف بھی بیانات دینے لگے اور فرسٹ ملائیشیا ڈویلپمنٹ برحارڈ میں کرپشن اسکینڈل سامنے آیا تو 2016ء میں پارٹی چھوڑ کر اپوزیشن سے جا ملے۔

2018ء کی انتخابی مہم

انور ابراہیم کو نائب وزیرِاعظم کے عہدے سے ہٹا کر جیل بھجوانے والے مہاتیر محمد نے اس بار ان کی پارٹی سے ہی انتخابی اتحاد بنایا اور کبھی اپنے پسندیدہ رہنے والے نجیب رزاق کو اقتدار سے نکال باہر کیا۔ مہاتیر محمد اپنی وزارتِ عظمیٰ کے دوران مخالفین کے لیے دہشت تھے، اپنی جماعت میں بھی اختلاف رائے رکھنے والوں سے آہنی ہاتھ سے نمٹتے رہے لیکن کبھی کسی بات پر انہوں نے معافی نہیں مانگی۔ نجیب رزاق کو اقتدار سے باہر کرنے کے لیے الیکشن مہم کے دوران شاید سیاسی زندگی میں پہلی بار مہاتیر محمد نے ایک غلطی کا اعتراف کیا اور معذرت بھی کی۔ یہ غلطی تھی نجیب رزاق کو اقتدار میں لانے کے لیے مدد دینا۔ الیکشن مہم کے دوران مہاتیر نے کہا کہ نجیب کی حمایت ان کی زندگی کی سب سے بڑی غلطی تھی لیکن الیکشن میں وہ اس غلطی کا ازالہ کردیں گے۔

مہاتیر محمد نے نجیب رزاق کو اقتدار سے ہٹا کر اپنی غلطی کا شاید ازالہ تو کردیا لیکن ایک بار پھر معاشی چیلنجز ان کے سامنے ہیں۔ مہاتیر کی فتح کے عوامل میں ایک ان کی جارحانہ معاشی پالیسیاں ہیں اور ملائیشیا کے عوام جو 6 فیصد گڈز اینڈ سروسز ٹیکس سے نالاں تھے اب ان سے توقع کریں گے کہ وہ اس ٹیکس کو ختم کریں لیکن اس سے ملائیشیا کی کریڈٹ ریٹنگ کم ہونے کا خدشہ ہے۔ مہاتیر نے وعدہ کیا تھا کہ وہ انتقامی سیاست نہیں کریں گے لیکن نجیب رزاق کے خلاف مالیاتی اسکینڈل کی تحقیقات ملک کے مالیاتی استحکام اور اداروں کی مضبوطی کے لیے اہم ہے۔

مہاتیر کے بعد وزیرِاعظم بننے والے عبداللہ بداوی نے ان کے بارے میں اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ مہاتیر اپنی مرضی کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ صرف وہی درست راستے پر ہیں۔ مہاتیر محمد ایسی تنقید کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ اگر لوگ مجھے ظالم یا فرعون کہتے ہیں تو کیا؟ مجھے فرق نہیں پڑتا کیونکہ سیاست میں ایسا ہوتا ہے۔ مہاتیر کو یہ بھی فکر نہیں کہ تاریخ انہیں یاد رکھے گی یا نہیں؟ مہاتیر کا کہنا ہے کہ مجھے اس کی پروا نہیں کہ لوگ مجھے یاد رکھیں گے یا نہیں، یاد رکھیں تو اچھا ہے، اگر یاد نہیں رکھیں گے تو بھی ٹھیک ہے، مجھے کیا فرق پڑے گا میں تو مرچکا ہوں گا۔

مہاتیر ایک کامیاب سیاستدان ہیں یا نہیں؟ اس بارے میں تو اختلاف موجود ہے، لیکن اس بات سے شاید سب ہی اتفاق کریں کہ 92 سال کی عمر میں دوبارہ اقتدار میں واپسی اور تقریبا 6 دہائیوں سے ملائیشیا کے سیاسی اتار چڑھاؤ میں اہم کردار انہیں ہمیشہ یاد رکھنے کے لیے کافی ہے۔

آصف شاہد

دو دہائیوں سے زائد عرصہ سے صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔ بین الاقوامی تعلقات بالخصوص مشرق وسطیٰ ان کی دلچسپی کے موضوعات ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔