نوری جھیل؛ جس کو دریافت کرنا تمام خوشیوں سے بڑھ کر لگا
نوری جھیل؛ جس کو دریافت کرنا تمام خوشیوں سے بڑھ کر لگا
گزشتہ برس ستمبر میں 4 دنوں کی مسلسل بیماری سے چاک ہوئے ہی تھے کہ پہاڑوں کی ایک نئی مہم کا دل چاہا، سو ایک مختصر گروپ کے ساتھ ناران کے لیے رختِ سفر باندھ لیا۔
ارادہ تو یہی تھا کہ ناران میں ہی قیام پر اکتفا کیا جائے، 2 دن تک اپنے اس ارادے پر پوری طرح کاربند بھی رہے، جمعے اور ہفتے کا دن بستر میں گزرا، مگر ہفتے کی رات ٹریکنگ اور نئے مقامات کو دریافت کرنے کی بے چینی سی شروع ہوگئی۔
حسبِ عادت میں نے، ٹریکنگ کے گرو اور آج سے 10 برس قبل اپنے بنائے ہوئے جی پی ایس سے نئی جگہوں کی تلاش میں شہرت رکھنے والے برادر انجینئر نعمان اشرف کو فون کیا، اور وہ بھی ٹریکنگ کے لیے میرے ہمراہی بننے پر تیار ہوگئے۔
ٹریک کا ہمسفر تو مل گیا اب یہ منصوبہ بندی کرنی تھی کہ سفر کس سمت سے شروع کریں اور کس مقام کو اپنی منزل بنایا جائے۔ سوچ بچار کے بعد ٹریکنگ کے لیے 3 آپشنز رکھ لیے گئے، منو سر جھیل، منور ویلی یا نوری جھیل۔
چونکہ نعمان بھائی کو ایبٹ آباد سے آنا تھا اور مجھے ناران میں کچھ ذاتی کام نمٹانے تھے، لہٰذا مہم کے لیے پیر کا دن طے پایا۔ اتوار کا دن گروپ کے دوستوں کو تیار کرنے اور رافٹنگ میں گزرا۔
اِس دوران نعمان اشرف کی والدہ کی اچانک طبعیت خراب ہونے کی وجہ سے پلان منسوخ کرنے کا سوچا گیا مگر اس سے پہلے کہ پلان کینسل کیا جاتا، نعمان بھائی نے اچھی خبر سنائی کہ والدہ کی طبعیت بہتر ہورہی ہے، لہٰذا وہ آرہے ہیں اور یوں اتوار کی رات نعمان اشرف بھائی ہمارے پاس پہنچ گئے۔
ایسی مہم پر اگر گروپ کی صورت میں 2 سے 4 دوستوں کے ساتھ جایا جائے تو سفر کا لطف دوبالا ہوجاتا ہے، لہٰذا میں نے مزید 3 قریبی دوستوں کو بھی اس مہم کے لیے راضی کرلیا۔
منزل کون سی رکھی جائے؟ اس پر باقاعدہ نشست ہوئی اور پھر سب کے اتفاق کے ساتھ نوری ٹاپ، آزاد کشمیر اور اس سے 4 کلو میٹر پہلے ایک نئی جھیل کو دریافت کرنے کا حتمی پروگرام طے پایا۔
صبح نماز کی ادائیگی اور پھر ناشتے سے فراغت کے بعد تقریباً 8 بجے ناران سے جلکڈ کی روانگی ہوئی۔ راستے میں باقی دوستوں کا مشورہ یہی تھا کہ نوری ٹاپ کی راہ لی جائے، اور جھیل جانے کا رسک لیا ہی نہ جائے، کیا پتہ جھیل ہو ہی نا، خیر ہمارے مصمم ارادے کے سامنے دوست سرِ تسلیم خم ہوگئے۔