دنیا

پاکستان کا امریکی سفارتکاروں پر جوابی پابندیاں لگانے پر غور

پاکستان میں موجود امریکی سفیروں کا انتہائی حساس علاقوں جیسے فاٹا میں جانا پہلے ہی ممنوع ہے۔

واشنگٹن: امریکا میں پاکستانی سفارتکاروں کی نقل و حرکت محدود کرنے کے امکان کے بعد پاکستان کی جانب سے اپنے شہروں میں موجود امریکی سفارتکاروں پر جوابی پابندیاں لگانے پر غور کیا جارہا ہے، تاہم امریکی قانون سازوں نے ٹرمپ انتظامیہ کو یہ مشورہ دیا ہے کہ وہ کوئی ایسا اقدام نہ کرے جس سے بات چیت کی راہ میں رکاوٹ پیدا ہو۔

خیال رہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے امریکی شہروں میں تعینات پاکستانی سفارتکاروں کو 25 میل کے اندر محدود کرنے کی تیاریاں مکمل کی جاچکی ہیں، تاہم اس طرح کے اقدام دونوں ممالک کے کشیدہ تعلقات کو مزید بڑھائیں گے۔

اس حوالے سے سرکاری ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ پاکستان بھی اسلام آباد، لاہور اور کراچی میں امریکی سفارتکاروں پر اسی طرح کی پابندیاں لگانے کا منصوبہ رکھتا ہے۔

مزید پڑھیں: پاکستانی سفارتکاروں کی نقل و حرکت محدود کرنے کا فیصلہ ملتوی

واضح رہے کہ متوقع دہشتگرد حملوں سے بچانے کے لیے پاکستان میں موجود امریکی سفیروں کا انتہائی حساس علاقوں جیسے فاٹا میں جانا پہلے ہی ممنوع ہے۔

دوسری جانب امریکا میں پاکستان سفارتکاروں پر مجوزہ پابندی پر عمل درآمد سے کچھ گھنٹے قبل امریکی قانون سازوں نے ٹرمپ انتظامیہ کو یاد دہانی کرائی کہ یہ کام کوئی زبردست اقدام نہیں ہے۔

اس حوالے سے کانگریس کے رکن ڈونلڈ کارکوس نے پاکستان امریکن کانگریس کے اجلاس سے خطاب میں پاکستان کے ساتھ تعلقات جاری رکھنے کی اہمیت پر زور دیا۔

انہوں نے کہا کہ ’ اہم چیز بات چیت ہے اور اگر اس طرح کی پابندیاں لگائی جاتی ہیں تو ہم بات چیت کے عمل کو روک دیں گے، اور میرا خیال سے یہ درست چیز نہیں ہے‘۔

اجلاس کے دوران مختلف مقررین نے اس بات کو اجاگر کیا کہ افغانستان میں بڑھتی ہوئی شورش پر امریکا کے تحفظات پاکستان کے لیے امریکا میں جگہ کم کر رہے ہیں۔

کانگریس کے ایک اور رکن تھومس آر سوزی کا کہنا تھا کہ اب امریکا میں ہر کوئی کشمیر کے بجائے پاک افغان سرحد پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے اور اب سول حکومت کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے، جیسے وہ پہلے ہوتی تھی۔

اس حوالے سے امریکا میں پاکستانی سیفر اعزاز احمد چوہدری کا کہنا تھا کہ پاکستان افغانستان میں امن کا خواہاں ہیں، ہم سمجھتے ہیں کہ افغانستان میں جنگ کی شدت کم نہیں ہورہی اور ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس کے لیے ایک ڈیڈلائن مختص کی ہوئی ہے۔

کشمیر کے معاملے پر ان کا کہنا تھا کہ ہم سمجھتے ہیں امریکا نے بھارت کے حوصلے بلند کیے ہیں تاکہ وہ کشمیر میں بڑی رسائی حاصل کرسکے۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا اور پاکستان کا اپنے سفیروں کی نقل و حرکت محدود کرنے کا امکان

اس موقع پر کانگریس رکن کا کہنا تھا کہ پاکستان اور بھارت دونوں ایک جیسے سیکیورٹی خطرات کا سامنا کر رہے ہیں، جس پر امریکا کو بھی تحفظات ہیں، لیکن ہم بہتر تعلقات استوار کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان میں دہشتگردی ایک بڑا مسئلہ ہے اور اسے نہ صرف ہمارے ملک بلکہ آپ کےملک پر بھی اثر پڑ رہا ہے۔

اجلاس سے خطاب میں آزاد کشمیر کے صدر سردار مسعود خان نے کہا کہ دونوں کوریائی ممالک کے درمیان امن کے امکانات کے بعد اس بات کی امید ہے کہ مسئلہ کشمیر کا حل ہوسکتا ہے۔


یہ خبر 11 مئی 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی