لکھاری نئی دہلی میں ڈان کے نمائندے ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس jawednaqvi@gmail.com ہے۔
آپ کیریلا میں واقع انڈین مسلم لیگ کے ہیڈکوارٹرز میں قائد اعظم محمد علی جناح کا پورٹریٹ 1990ء کی دہائی میں دیکھ سکتے تھے، میں نے خود بھی دیکھا تھا۔ مجھے نہیں معلوم کہ پارٹی کے دو دھڑوں میں بٹنے کے بعد بھی وہ تصویر اب بھی موجود ہے یا نہیں۔ جب انتخابات کے دنوں میں کانگریس پارٹی کے ٹھنڈے مزاج کے ترجمان وتھل راؤ گاڈگل کو ان کے سیاسی اتحادی کے قائد اعظم محمد علی جناح سے اس عجیب و غریب تعلق پر تبصرہ کرنے کا کہا گیا تو انہوں نے بڑے تحمل کے ساتھ مسکراتے ہوئے کہا، ’وہ انہیں اپنی پارٹی کے بانی کے طور پر دیکھتے ہیں۔‘ بس اتنا ہی تبصرہ، کیونکہ اس پر زیادہ تبصرے کی ضرورت بھی نہیں۔
جس طرح علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے لیے سر سید احمد بانی ہیں، جنہوں نے اس ادارے کو محمدن اینگلو اوریئنٹل کالج کے طور پر قائم کیا تاکہ وہ آہستہ آہستہ اپنی برداری کے لیے بہتر مواقع پیدا کرسکیں کیونکہ 1857ء کی بغاوت میں مسلمانوں کے کردار کو دیکھتے ہوئے برٹش نے ان کے ساتھ ناگوار رویہ رکھا ہوا تھا۔
1916ء میں لکھنؤ معاہدے کے موقعے پر سروجنی نائڈو نے قائد اعظم کو ہندو مسلم اتحاد کے سفیر کے طور پر پکارتے ہوئے تعریف کی تھی۔ ان کے دیے گئے اس خطاب میں نادانستہ طور پر قائد اعظم کو مسلم رہنما کا درجہ دے دیا، جبکہ دوسری طرف گاندھی اور نہرو کی مذہبی شناخت کو نظر انداز کرتے ہوئے ہندوستانی رہنماؤں کے طور پر پیش کیا گیا۔
پڑھیے: بھارت: بائیں بازو کی جماعتوں کا پاکستان سے مذاکرات کا مطالبہ
قائد اعظم کو یہ بات ناگوار گزری ہوگی، جس طرح سلام مچھلی شہری کو مجاز کے تبصرے پر گزری تھی۔ کیونکہ مجاز نے ایک بار کہا تھا کہ، ’اب سلام صاحب اپنا کلام پیش کریں گے۔ یہ مچھلی شہر کے تسلیم شدہ شاعر ہیں۔‘ مطلب صورتحال کچھ ایسی تھی کہ، گاندھی سے ملیے، یہ ہندوستانی رہنما ہیں۔ جناح سے ملیے، یہ مسلم رہنما ہیں۔ تعارف کی اس تفصیل نے ایک بڑی تفریق کی پیش گوئی کردی تھی۔
اس نفسیات کا تسلسل آج تک قائم ہے۔ ہندوستان نے مسلمان صدور، مسلمان فلمی ستارے پیدا کیے اور ایک موقع پر تو ملک کا وزیرِ داخلہ بھی ایک مسلمان بنا۔ یہ زبردست بات ہے۔
مگر برادری نے ہمیشہ صرف یہی مطالبہ کیا ہے کہ انہیں برابر شہری حقوق دیے جائیں، جن میں فوج، پولیس اور بیوروکریسی کے شعبوں میں ملازمتیں اور ان سے بڑھ کر سائنسی تعلیم شامل ہیں۔ ایک مسلمان صدر یا ایک مسلمان فلمی ستارہ کے سہارے سماجی سطح پر پوری برادری کو مطمئن نہیں کیا جانا چاہیے۔ جب جسٹس سچار نے ہمیں مسلمانوں کو قومی دھارے میں لانے کی یاد دہانی کروائی تو اگلے ہی روز ان کی موت کی خبر سنی۔
گاندھی اور قائد اعظم کے درمیان تفریق کا ایک اہم نکتہ دونوں کی سائنسی نقطہ نظر تھا۔ سر سید اور قائد اعظم دونوں ہی نے مسلمانوں کو کٹر مذہبی رہنماؤں کے شکنجے سے نکالنے کے اپنے مقصد کے لیے جدیدیت اور دلائل کو مقدم رکھا، جبکہ گاندھی نے خلافت تحریک کی حمایت اور مذہبی علامتیت سے شغف نے بالکل الٹا کام کیا کیونکہ اس طرح وہ ایک پوری برادری کو ماضی میں ان کے قرون وسطیٰ کے دور میں لے گئے، اور یوں اس برادری کو ان کٹر مذہبی رہنماؤں کے پاس لا کر کھڑا کردیا، جو آج کی آل انڈیا مسلم پرسنل بورڈ کے پیش رو ہیں۔
یہ وہی کٹر مذہبی رہنما ہیں، جنہیں کروڑوں افراد پر مشتمل برادری کے سپرد کرنے کے بعد ہر ہندوستانی جماعت انتخابات کے دوران اپنے فائدے کے لیے استعمال کرتی ہے۔ ہمیں یہ بھولنا نہیں چاہیے کہ قائد اعظم کا ہیرو مصطفی اتاترک تھا، جو کٹر مذہبی رہنماؤں کا بڑا مخالف اور صدیوں سے قائم جہل پسندی سے آزادی دلانے والا رہنما تھا۔
آخر کیوں وزیراعظم مودی کے حامیوں کو علی مسلم یونیورسٹی کے اسٹوڈنٹ یونین ہال میں ٹنگی قائد اعظم کی تصوی اچانک سے کھٹکنے لگی؟
پڑھیے: میں کلبھوشن یادیو کا حامی ہوں، مگر
ایک دن پارٹی کے نمائندے نے تصویر ہٹانے کے لیے وائس چانسلر کو خط لکھا اور اگلے ہی دن انہوں نے پولیس کی مدد سے یونیورسٹی پر حملہ کردیا۔ دہائیوں سے وہ تصویر اپنی جگہ پر موجود تھی، بلکہ یہ تصویر اس دن سے لگی ہوئی ہے جب قائد اعظم وہاں طلبہ سے ملنے آئے تھے۔ یہ اس دن سے بہت ہی پہلے کی بات ہے جب واجپائی لاہور گئے تھے اور مینارِ پاکستان کا دورہ کرکے بالآخر انہوں نے پاکستان کے تصور کو تسلیم کر ہی لیا تھا۔
اس دن تو نتھورام گوڈسے کی روح تڑپ اٹھی ہوگی۔ اس کی استھیوں کو سنبھال کر رکھا گیا تھا کہ جب دریائے سندھ ہندو راشٹریہ کا حصہ بن جائے گا تب اس میں ان کی استھیاں بہائی جائیں گی۔ واجپائی نے اپنے ایک عمل سے ہی یہ خواب چکنا چور کردیا اور کسی بھی ہندوتوا ایجنٹ نے احتجاج تک نہیں کیا۔
سرحد کے دونوں اطراف موجود ناسمجھ افراد کے ہجوم قوم پرستی کے حوالے سے اپنے اپنے نظریات میں اتنا محو ہوکر وہ کچھ کرتے ہیں جس کی کوئی منطق ہی نہیں ہوتی۔ اس تازہ ترین تنازع کا تعلق دراصل سیاسی چالبازی سے ہے۔ 12 مئی کو کرناٹکا اسمبلی کے انتخابات ہوں گے۔ اس ریاست میں کانگریس کی حکومت ہے۔ بھارتیہ جنٹا پارٹی ان انتخابات کو جنوبی ہندوستان میں داخل ہونے کے ایک راستے کے طور پر دیکھتی ہے مگر اسے جنوب میں کہیں بھی اپنے پیر جمانے میں مشکل کا سامنا ہے۔
بی جے پی کے لیے اپنے آزمودہ طریقے یعنی تشدد کے ذریعے کرناٹکا انتخابات میں فرقہ واریت کو جنم دینا ممکن نہیں، خاص طور پر جب ریاست میں کانگریس کی حکومت ہو۔ لہٰذا یہ سارا ہنگامہ وہاں سے کہیں دور اتر پردیش میں یکم مئی کو قائد اعظم کی تصویر پر کھڑا کیا گیا، جبکہ ہندوتوا کے حامی ٹی وی چینلز بڑی ذمہ داری کے ساتھ تشدد کو کرناٹکا کے مڈل کلاس ڈرائنگ رومز تک پہنچانے میں مصروف رہے۔
پڑھیے: شیشے میں نظر آنے والا حقیقی خطرہ کون ہے؟
حلقہ انتخاب میں یہ مسئلہ کس قدر اثر انداز ہوا اس کا پتہ تو 3 فریقوں کے مابین ہونے والے انتخابی مقابلے کے بعد 15 مئی کو ووٹوں کی گنتی سے ہی پتہ چلے گا۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ بی جے پی نے انتخابات میں اپنا سب کچھ، بشمول وزیراعظم نریندر مودی کی اپنی مہم کے، قربان کردیا ہے۔ یوپی کے وزیرِاعلیٰ یوگی آدتیہ کو کرناٹکا پر تنقید کرنے کے لیے وہاں بھیج دیا گیا ہے کہ یہ ریاست کس طرح ایسی حکومت کو تسلیم کرسکتی ہے جو گائے ذبح کرنے کی اجازت دیتی ہو۔
جبکہ جنوبی ریاستوں کے ساتھ ساتھ بی جے پی کے زیرِ اقتدار گووا اور تمام شمال مشرقی ریاستوں میں گائے کھانا بالکل بھی غیر قانونی نہیں اور اگر یہ سوچ رہے ہیں کہ بی جے پی نے ہندو ووٹ کو اپنی طرف مائل کرنے کے لیے خود کو مسلمانوں سے دور کردیا ہے تو آپ ایک بار پھر غلط سوچ رہے ہیں۔ بی جے پی نے مغربی بنگال میں درجنوں مسلمان امیدواروں کو کھڑا کیا ہے جہاں عام طور پر مسلمان وزیرِاعلیٰ ممتا بینرجی کی حمایت کرتے ہیں، اور کچھ دن قبل قائد اعظم مخالف تنقید میں آگے آگے کون تھے؟ وہ بی جے پی کے وفادار مسلمان ہی تھے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قائد اعظم تنازع پر ہندوستانی لبرلز کا مؤقف کیا ہے؟ کیا ہندوستانی لبرلز یہ بھول سکتے ہیں، اور اگر بھول بیٹھیں بھی تو کس لیے، کہ انہوں نے قائد اعظم کی پاکستان کے لیے مہم کی تائید کی تھی؟
لاہور سے تعلق رکھنے والی ایک ممتاز کارکن، مرحومہ طاہرہ مظہر علی خان نے مجھے تفصیل کے ساتھ بتایا تھا کہ کس طرح وہ سائیکل پر سوار ہوکر قائد اعظم کے پاس پہنچیں اور انہیں کمیونسٹ پارٹی کی جانب سے تصورِ پاکستان کی حمایت کا پیغام دیا۔ اگر کمیونسٹ اس بات سے آج انکاری ہیں تو کوئی بات نہیں لیکن فقط انکار انہیں ہندوتوا کے اگلے حملے سے محفوظ نہیں رکھے گا۔ دراصل نشانہ قائد اعظم کو نہیں بلکہ ہندوستانی لبرلز کو بنایا گیا۔ اس میں کوئی حیرانی کی بات نہیں کہ جو قائد اعظم کو ناپسند کرتے ہیں وہ نہ تو نہرو کے چاہنے والے ہیں اور نہ ہی بائیں بازو کے، گاڈگل سے ہی کچھ سیکھ لیجیے۔
یہ مضمون 8 مئی 2018ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
انگلش میں پڑھیں۔