پاکستان

سپریم کورٹ: موبائل کارڈ ز پر ودہولڈنگ ٹیکس غیر قانونی طریقہ قرار

جو شخص ٹیکس دینے کااہل نہیں ان سے ودہولڈنگ ٹیکس لیاجاتاہے،مختلف ممالک میں کال ریٹ کاتقابلی جائزہ پیش کیا جائے، چیف جسٹس

سپریم کورٹ نے موبائل کمپنیوں کی جانب سے سیلز اور ود ہولڈنگ ٹیکس وصول کرنے کو غیرقانونی قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ ٹیکس کس قانون کے تحت وصول کیا جارہا ہے اور حکم دیا کہ مختلف ممالک میں کال ریٹ کا تقابلی جائزہ چارٹ پیش کردیا جائے۔

چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے موبائل کمپنیوں کی جانب سے موبائل کارڈرز پر زائد وصولیوں کے حوالے سے مقدمات کی سماعت کی۔

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ 100 روپے کے موبائل کارڈ پر موبائل کمپنیاں 19.5 فیصد سیلز ٹیکس وصول کرتی ہیں، دس فیصد سروس چارجز، 12.5 فیصد ودہولڈنگ ٹیکس لیاجاتا ہے۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ موبائل کارڈ پرسیل ٹیکس کیسےلگا دیا، ودہولڈنگ ٹیکس کیسے وصول کیا جارہا ہے؟ کیا استحصال نہیں جو شخص ٹیکس دینے کا اہل نہیں اس سے ودہولڈنگ ٹیکس لیا جاتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ وزیر خزانہ کو بلائیں، 14 کروڑ صارفین سے روزانہ ٹیکس کس کھاتےمیں لیاجاتاہے، ہمیں قانون بتائیں سیلزٹیکس کیوں لیا جارہا ہے۔

جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ ودہولڈنگ وہی شخص دے گا، جو ٹیکس دینے کا اہل ہوگا، کروڑوں عوام سے ود ہولڈنگ کیسے لیا جا رہا ہے۔

سماعت کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ پیسے ہتھیانے کا یہ غیر قانونی طریقہ ہے۔

جسٹس عمرعطا بندیال کا کہنا تھا کی موبائل صارفین سے 42 فیصد ٹیکس وصول کیا جارہا ہے، جس پروکیل نے بتایا کہ وفاق میں 17 فیصد، صوبوں میں19فیصد ٹیکس وصول کیا جارہا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ودہولڈنگ ٹیکس کی وضاحت کی جائے، سروس چارجزکیوں لیے جاتے ہیں، جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ سروس چارجز کا جواب کمپنیاں دے سکتی ہیں، حکومت اور ڈپلومیٹس سے ودہولڈنگ ٹیکس نہیں لیا جاتا۔

جسٹس ثاقب نثار نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ صوبے 19.5 فیصد کس قانون کے تحت سیلز ٹیکس لے رہے ہیں، صوبے وضاحت کریں۔

انھوں نے مختلف ممالک میں کال ریٹ کا تقابلی جائزہ چارٹ پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ وفاق، ایف بی آراور صوبے کو ایک ہفتے میں جواب جمع کرانے کی ہدایت کردی۔