نقطہ نظر

’وزیرِِاعظم زرداری سننے میں عجیب ضرور، مگر ناممکن نہیں!‘

زرداری کو نظر انداز نہ کریں۔ وہ کہہ چکے ہیں کہ قومی اسمبلی میں اپنی موجودگی چاہتے ہیں اور کھیل سے ابھی ان کا دل بھرانہیں
لکھاری ڈان اخبار کے اسٹاف ممبر ہیں۔

ہر کوئی وزیرِاعظم بننا چاہتا ہے۔ آپ سوچیں گے کہ ایک ایسی ملازمت جس کا اختتام لازمی طور پر ناگوار ہوتا ہے اور جیل کی ہوا بھی کھانی پڑسکتی ہے تو ایسی ملازمت کے خواہاں بہت ہی کم ہوں گے، لیکن نہیں جناب، بلکہ ہر کوئی وزیرِاعظم بننا چاہتا ہے۔

تاہم وہ افراد جو جولائی میں ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں اگلی باری ملنے کا حقیقی چانس رکھتے ہیں، ان کی تعداد بہت تھوڑی ہے۔

تو آئیے ہم ان ہی کی بات کرتے ہیں۔

مسلم لیگ (ن) کے پاس 3 آپشنز ہیں: نواز، شہباز یا کوئی ایسا جو دونوں کو قبول ہو۔ نواز تو اس دوڑ میں نہیں، اس وجہ سے نہیں کہ وہ دوبارہ یہ کام نہیں کرنا چاہتے، آپ کو تو معلوم ہی ہے کہ اگر وہ ایسا کرسکتے تو کر بھی لیتے، لیکن نظام انہیں اپنے اندر شامل نہیں دیکھنا چاہتا۔

شہباز کے لیے، یہ موقع ابھی نہیں تو کبھی نہیں کے مترادف ہے۔ شہباز کو بھی ایسا ہی لگتا ہے کیونکہ ان کی تعلقاتِ عامہ کی مشین رفتار پکڑ رہی ہے اور بڑے بھائی کے کیمپ کے ساتھ مقابلہ بھی سخت ہوتا جارہا ہے۔

مزید پڑھیے: غیر حقیقی بحران سے حقیقی بحران تک

مگر خود کو وزیرِاعظم کے طور پر امیدوار پیش کرنا شہباز کے لیے بالکل بھی آسان کام نہیں کیونکہ انہوں نے لڑکوں کے سامنے کوئی ایسا عملی مظاہرہ نہیں کیا ہے کہ نواز لیگ کو نواز سے ہتھیانے کے لیے ان پر انحصار کیا جاسکے۔

شہباز لچک دار وزیرِاعظم بننے کے لیے شاید راضی بھی ہوں لیکن اس سے پہلے انہیں انتخابات میں اپنی پشت پناہی کے لیے اپنے بھائی کو قائل کرنا ہوگا۔

نواز یہ کام خود کریں، یا حالات ان سے ایسا کروالیں، مثلاً نیب عدالت سے اچانک سزا، نواز کو ایسا کرنے پر مجبور کردیں، مگر ایک مسئلہ اپنی جگہ موجود ہے: نواز نے شہباز کو وزیرِاعظم بنانے میں کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کی۔

شہباز کا وزیرِاعظم بننے کا مطلب یہ ہے کہ صرف پارٹی کا کنٹرول نواز سے شہباز کے پاس نہیں آئے گا، بلکہ پارٹی کا مستقبل بھی شہباز شریف پر انحصار کرے گا۔ اگرچہ شہباز سے یہ وعدہ بھی لیا گیا ہوگا کہ مریم کو پارٹی کی برابر وارث رکھا جائے، یعنی شہباز کی باری کے بعد، مریم کا نمبر آئے گا، لیکن یہ کس قدر قابلِ اعتبار ہوگا؟

جس کا مطلب یہ ہوا کہ شہباز اپنے مقصد کے حصول کے لیے 3 محاذوں پر جدوجہد کر رہے ہیں۔

تیسرا امکان، مان لیجیے کہ نواز لیگ جیت جاتی ہے یا پھر اتنی نشستیں جیتنے دی جاتی ہیں جتنی ضرورت ہو، تو تیسرا امکان ہے سمجھوتے کے تحت طے پایا گیا امیدوار: جو کہ دونوں بھائیوں کو قبول ہو اور لڑکوں کو بھی۔

موجودہ وزیرِاعظم کو بھی اس دوڑ میں شامل کرنے کی امیدیں دلائی گئی ہیں۔ نواز لیگ میں، آپ کو کسی ایک کا جانبدار بننا ہوتا ہے: یا تو آپ نواز کے ساتھ ہیں یا پھر شہباز کے ساتھ۔ گزشتہ کئی سالوں سے چند ہی ایسے لوگ ہیں جو ایک ہی وقت میں دونوں بھائیوں کے کیمپوں میں شامل رہنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

خاقان عباسی بھی ان میں سے ایک ہیں۔ اس کے ساتھ، انہیں ایک ایسے فرد کے طور پر دیکھا جاتا ہے جو لڑکوں کے ساتھ صرف کام ہی نہیں کرسکتا، بلکہ سر جھکا کر کام کرنا جانتا ہے۔ تاہم ان پر زور دیا گیا کہ وہ اس کام کو جاری رکھنے کی کوشش میں نہیں ہیں اور دوسری طرف شکوک و شبہات کو بڑھانے والے دعوے کی حال ہی میں پشتہ بندی کی گئی ہے۔

وزیرِاعظم کا سینیٹ چوری پر عوام کے سامنے غصہ اور اب عنقریب ہونے والے انتخابات کے بارے میں غیر سیاسی الفاظ سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اخراج کی طرف بڑھ چکے ہیں اور یہ کہ ان کا ستارہ مدھم ہوچکا ہے۔

مزید پڑھیے: وقت پر انتخابات کے انتظار میں کہیں کھیل سمٹ ہی نہ جائے

پی ٹی آئی کی طرف چلتے ہیں۔ عمران خان نے 11 نکات کچھ اس طرح پیش کیے جیسے کوئی وزارتِ عظمی کا منتظر امیدوار ہو، اور اس سب سے یہ تاثر ملا کہ وہی اس کام کے لیے بالکل ٹھیک ہیں۔ موجودہ حالات کے حساب سے ایک وزیرِاعظم جس نے بڑی احتیاط کے ساتھ خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک پورا ملک کا داخلی ایجنڈا ترتیب دیا۔

مگر جتنی جلدی خان اس مقام تک پہنچے تھے، ان کے ہی ایک دوسرے موقف نے انہیں اسے بھی جلدی پیچھے سے پکڑ لیا۔ لڑکوں اور گزشتہ انتخابات میں ان کے مبینہ ہاتھوں کے بارے میں اچانک سے ایسی باتیں کرنا، یہ باتیں سمجھ سے باہر اور بے ضبط تھیں۔

جیسے ایک یاد دہانی کی ضرورت تھی کہ عمران کے مزاج کا کوئی بھروسہ نہیں، ان پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا اور اگر انہیں کبھی بھی وزارتِ عظمی کا عہدہ، جو ان کی پوری سیاسی زندگی کی تمنا ہے، ملا تو یہ تنازع بھی کھڑا کرسکتا ہے، کیونکہ عمران نے یادگار کام کیا ہے وہ بھی خود ہی بغیر کسی ترغیب کے۔

ہمیں اور خود عمران خان کو بھی وزیرِاعظم بننے کے لیے ایک طویل عرصہ صبر کرنا پڑسکتا ہے۔

مگر اس طرح پی ٹی آئی کو مکمل طور پر خارج نہیں کیا جاسکتا۔ آپ ایسے مواقع کی توقع نہیں کرسکتے جن میں عمران خان رضامندی کے ساتھ اپنی پارٹی میں سے اپنے سوا کسی دوسرے کو وزارتِ عظمی کے عہدے کے لیے آگے کریں، مگر ایسے موقعے ہوسکتے ہیں جن میں پی ٹی آئی کے اندر سے ہی وزارتِ عظمی کے لیے عمران کو ایک طرف کردیا جائے۔

عمران کے بعد، پارٹی کے اندر یا تو وہ الیکٹیبلز ہیں جو ہیڈ لائنز بناتے ہیں، یا پھر وہ جو کچے مگر بہت پیسے والے ہیں۔ مگر ایسے بھی کئی لوگ ہیں جو اپنی خواہشات بتاتے نہیں، وہ یہ مانتے ہیں کہ رابطے درست ہوں اور شاید جب وقت آئے تو چاقو نکالنے پر آمادگی۔

ہوسکتا ہے کہ مستقبل میں ان میں سے کسی ایک کی قسمت کے ستارے حرکت میں آجائیں۔ شاہ محمود قریشی یا اسد عمر کے بارے میں کیا خیال ہے۔

اور پھر ہے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی)۔ اگر نواز لیگ بکھر جاتی ہے جس کا کچھ خاص امکان نظر نہیں آتا اور پی ٹی آئی ناکام ہوئی، جس کا پورا پورا امکان ہے، تو پی پی پی خود ہی بادشاہ بننے سے لے کر اپنے لیے تخت کا مطالبہ کرسکتی ہے۔

اس صورتحال میں زرداری کو اتنا جلدی نظر انداز نہ کریں۔ وہ پہلے کہہ چکے ہیں کہ وہ قومی اسمبلی میں اپنی موجودگی چاہتے ہیں اور کھیل سے ان کا دل بھرا نہیں ہے۔ اگر وزیرِاعظم زرداری سننے میں عجیب لگتا ہے تو یاد رکھیے ایسا تو صدر زرداری میں بھی لگتا تھا، یہ قصہ اتنا پرانا نہیں۔

مزید پڑھیے: نواز شریف کو عدلیہ سے کیا مسئلہ ہے؟

اور پھر ہے سنجرانی کا آپشن۔ بغیر کسی پارٹی کی اکثریت کے پارلیمنٹ، بکھری ہوئی نواز لیگ، بدحال پی ٹی آئی، ڈیل کرنے کے لیے زرداری کی کوششیں، یوں معاملہ لڑکوں کی چوائس کے مطابق طے پایا جاسکتا ہے۔

لیکن وہ چوائس بلوچستان میں خود سنجرانی یا بزنجو سے تھوڑا زیادہ معروف ہو کیونکہ قومی اسمبلی کو غیر معروف افراد سے بھر دینا ایک مشکل کام ہے شاید۔ آپ تو دیکھ ہی سکتے ہیں کہ جب بات اس نہج پر آتی ہے تو زرداری عمران سے بازی لے جاتے ہیں۔

مگر چونکہ وزیرِاعظم بے پناہ اختیار رکھتا ہے اور اس اختیار کو مؤثر انداز میں محدود جو کرسکتے ہیں ان میں لڑکے اور عدالت شامل ہیں، زرداری یا عمران سنجرانی جیسے کسی سردار کو اپنے اوپر لانا نہیں چاہیں گے۔

تاہم ایک منظر نامہ اپنی جگہ موجود ہے جس میں اپنے لیے فائدہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اگست میں وزیرِاعظم کے انتخاب کے بعد ستمبر میں صدر کی مدت پوری ہوجائے گی۔

تو ایک بار پھر زرداری کو صدر دیکھنے کے بارے میں کیا خیال ہے؟

سیرل المیڈا

لکھاری ڈان اخبار کے اسٹاف ممبر ہیں۔

ان کی ٹوئٹر آئی ڈی cyalm@ ہے

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔